فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ
پس اے میرے نبی ! آپ جان لیجیے کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود (١٠) نہیں ہے، اور آپ اپنے گناہوں کے لئے مغفرت طلب کرتے رہئے، اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی، اور اللہ تم سب کی نقل و حرکت اور اقامت و رہائش سے خوب واقف ہے
علم میں اقرار قلب اور اس معنی کی معرفت، جو علم اسے طلب کرتا ہے، لازمی امر ہے اور علم کی تکمیل یہ ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابع عمل کیا جائے اور یہ علم جس کے حصول کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم ہے اور ہر انسان پر فرض عین ہے اور کسی پر بھی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ساقط نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کے لئے اس کا حصول ضروری ہے۔ اس علم کے حصول کا طریق کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، چند امور پر مبنی ہے : (1) سب سے بڑا امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں تدبر کیا جائے جو اس کے کمال اور اس کی عظمت و جلال پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اسماء و صفات میں تدبر و عبادت میں کوشش صرف کرنے اور رب کامل کے لئے تعبد کا موجب ہوتا ہے جو ہر قسم کی حمدو مجد اور جلال و جمال کا مالک ہے۔ (2) اس حقیقت کا علم کہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے، اس کے ذریعے سے اس بات کا علم حاصل ہوگا کہ وہ الوہیت میں میں بھی متفرد ہے۔ (3) اس امر کا علم کہ ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے میں وہ متفرد ہے۔ یہ علم دل کے اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے، اس سے محبت کرنے، اس اکیلے کی عبادت کرنے کا موجب بنتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ (4) ہم یہ جو دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لئے، جو اس کی توحید کو قائم کرتے ہیں، فتح و نصرت اور دنیاوی نعمتیں ہیں اور اس کے دشمن مشرکین کے لئے سزا اور عذاب ہے۔۔۔ یہ چیز اس علم کے حصول کی طرف دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور تمام تر عبادت کا وہی مستحق ہے۔ (5) ان بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کے اوصاف کی معرفت، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے اور انہیں معبود بنا لیا گیا ہے، کہ یہ ہر لحاظ سے ناقص اور بالذات محتاج ہیں، یہ خود اپنے لئے اور اپنے عبادت گزاروں کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، ان کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ یہ دوبارہ زندگی ہی عطا کرسکتے ہیں، یہ ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے جو ان کی عبادت کرتے ہیں، بھلائی عطاکرنے اور شر کو دور کرنے میں ان کے ذرہ بھر کام نہیں آ سکتے جیونکہ ان اوصاف کا علم، اس حقیقت کے علم کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، نیز یہ علم اللہ کے ماسوا کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہے۔ (6) حقیقت توحید پر اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں اتفاق کرتی ہیں۔ (7) اللہ تعالیٰ کے خاص بندے، جو اخلاق، عقل، رائے، صواب اور علم کے اعتبار سے اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامل ہیں، یعنی انبیاء و مرسلین اور علمائے ربانی، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ (8) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دلائل افقیہ اور نفسیہ قائم کیے ہیں، جو توحید الٰہی پر سب سے بڑی دلیل ہیں، اپنی زبان سے حال سے پکار پکار کر اس کی باریک کاریگری، اس کی عجیب وغریب حکمتوں اور اس کی انوکھی تخلیق کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کثرت سے اس امر کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کو اپنی کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے اور بار بار ان کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض پر غوروفکر کرنے سے بندے کو علم اور یقین حاصل ہونا ایک لازمی امر ہے، تب بندے کو کیوں کر علم اور یقین حاصل نہ ہوگا جب دلائل ہر جانب سے مجتمع اور متفق ہو کر توحید پر دلالت کرتے ہوں۔ یہاں بندۂ مومن کے دل میں توحید پر ایمان اور اس کا عل راسخ ہو کر پہاڑوں کی مانند بن جاتے ہیں، شبہات و خیالات انہیں متزلزل نہیں کرسکتے اور باطل اور شبہات کے بار بار وارد ہونے سے ان کی نشونما اور ان کے کمال میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اس عظیم دلیل اور بہت بڑے معاملے کو دیکھیں۔۔۔ اور وہ ہے قرآن عظیم میں تدبر اور اس کی آیات میں غوروفکر۔۔۔ تو یہ علم توحید تک پہنچنے کے لئے بہت بڑا دروازہ ہے، اس کے ذریعے سے توحید کی وہ تفاصیل حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ﴾ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجئے، یعنی توبہ، مغفرت کی دعا، گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں اور گناہوں اور جرائم کو ترک کرکے مغفرت کے اسباب پر عمل کیجئے۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ اسی طرح بخشش طلب کیجئے ﴿ َلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ’’مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے۔“ کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سبب سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر حق رکھتے ہیں اور ان کے جملہ حقوق میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگی جائے۔ جب آپ ان کے لئے استغفار پر مامور ہیں، جو ان سے گناہوں اور ان کی سزا کے ازالے کو متضمن ہے، تب اس کے لوازم میں سے ہے کہ ان کی خیر خواہی کی جائے، ان کے لئے بھلائی کو پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، ان کے لئے برائی کو ناپسند کریں جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں، انہیں ان کاموں کا حکم دیں جن میں ان کے لئے بھلائی ہے اور ان کاموں سے روکیں جن سے ان کو ضرور پہنچتا ہے، ان کی کوتاہیوں اور عیبوں کو معاف کردیں، ان کے ساتھ اس طرح اکٹھے رہنے کی خواہش رکھیں جس سے ان کے دل اکٹھے رہیں اور ان کے درمیان کینہ اور بغض زائل ہو جو عدوات اور ایسی مخالفت کا سبب بنتا ہے جس سے ان کے گناہ اور معاصی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ حرکات و تصرفات اور تمہاری آمدروفت کو خوب جانتا ہے۔ ﴿ وَمَثْوَاكُمْ ﴾ اور تمہاری رہائش کی جگہ کو بھی جانتا ہے۔ جہاں تم ٹھہرتے ہو۔ وہ تمہاری حرکات و سکنات کو جانتا ہے وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔