فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ
پس وہ لوگ صرف قیامت کا انتظار (٩) کر رہے ہیں، کہ وہ اچانک انہیں آلے، چنانچہ اس کی نشانیاں تو آہی گئیں، پس جب وہ آدھمکے گی تو وہ لوگ اس سے کہاں عبرت حاصل کرسکیں گے
کیا یہ اہل تکذیب منتظر ہیں﴿ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ﴾ کہ قیامت کی گھڑی اچانک ان کے پاس آئے، اور انہیں شعور بھی نہ ہو ﴿ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ﴾ یعنی قیامت کی وہ علامت آچکی ہیں جو اس کے قریب آجانے پر دلالت کرتی ہیں۔﴿ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ﴾ جب قیامت کی گھڑی آجائے گی، ان کی مدت مقررہ اختتام کو پہنچ جائے گی تو ان کا نصیحت پکڑنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہونا کس کام آئے گا؟ یہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل گیا، نصیحت پکڑنے کا وقت گزر گیا، انہوں نے وہ عمر گزار لی جس کے اندر نصیحت پکڑی جاسکتی تھی حالانکہ ان کے پاس برے انجام سے ڈرانے والا بھی آیا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ موت کے اچانک آجانے سے پہلے پہلے اس کی تیاری کرلینی چاہیے، کیونکہ انسان کی موت ہی اس کے لئے قیامت کی گھڑی ہے۔