أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی بات صادق آگئی (کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا) جنوں اور انسانوں کی ان جماعتوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گذر چکی ہیں، بے شک وہ لوگ گھاٹا اٹھانے والے تھے
﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ ﴾ یعنی اس مذموم حالت کے حاملین ﴿ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ان پر کلمۂ عذاب واجب ہوگیا ﴿ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ﴾ ” وہ ان جنات اور انسانوں کے گروہ کے ساتھ شامل ہوں گے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں“ یعنی ان جملہ قوموں میں جو کفر اور تکذیب پر جمی رہیں عنقریب وہ اپنے کرتوتوں کے سمندر میں غرق ہوں گے۔ ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ ﴾ ” یقیناً وہ نقصان پانے والے تھے۔“ اور خسران انسان کے راس المال کے ضائع ہونے کا نام ہے۔ جب راس المال ہی مفقود ہو تو منافع سے محرومی تو بدرجہ اولیٰ ہے۔ پس وہ ایمان سے محروم ہوگئے ہیں انہیں کوئی نعمت حاصل ہوئی نہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے۔