سورة الأحقاف - آیت 7

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں (٦) کی تلاوت کی جاتی تھی، تو حق (یعنی قرآن) کا انکار کرنے والوں نے، جب وہ حق ان کے پاس آچکا، کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اور جب ان جھٹلانے والوں کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں ﴿ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ﴾ ” ہماری واضح آیات“ اور وہ اس طرح واقع ہوتی ہیں کہ ان کے واقع ہونے اور حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا، یہ آیات انہیں کوئی فاہدہ نہیں دیتیں بلکہ ان کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ وہ اپنی بہتان طرازی اور افترا پردازی کی بنا پر کہتے ہیں ﴿ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” حق کے بارے میں جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے“ یعنی ظاہر جادو ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ان کا یہ قول قلب حقائق کے زمرے میں آتا ہے، جو ضعیف العقل لوگوں میں رواج پاسکتا ہے ورنہ حق، جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور جادو کے مابین بہت بڑا تفاوت اور منافات ہے جو زمین و آسمان کے تفاوت سے بڑھ کر ہے۔ وہ حق جو غالب ہے اور افلاک کی بلندیوں پر پہنچا ہوا ہے، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہے، جس کی حقانیت پر دلائل آفاق اور دلائلِ نفس دلالت کرتے ہیں، جس کے سامنے اصحاب بصیرت اور خرد مند لوگ سرنگوں ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں، اسے باطل پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟ جو جادو ہے، جو ظالم، گمراہ، خبیث النفس اور خبیث العمل شخص کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتا۔ پس جادو ایسے ہی شخص کے لئے مناسب اور اس کے موافق حال ہوتا ہے۔ کیا یہ باطل کے سوا کچھ اور ہے؟