إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا؟ اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے
اگر اللہ تعالیٰ اپنی فتح و نصرت اور اعانت کے ذریعے سے تمہاری مدد کرے ﴿فَلَا غَالِبَ لَكُمْ﴾ تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، خواہ دنیا کے تمام شوگوں سے جمع ہو کر لوگ تمہارے خلاف کیوں نہ آجائیں اور خواہ ان کے پاس کتنی ہی زیادہ تعداد اور کتنا ہی سرو سامان کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ تمام بندے اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔ ان کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، پس کوئی جاندار اس کی اجازت کے بغیر حرکت کرسکتا ہے نہ اس کی اجازت کے بغیر سکون اختیار کرسکتا ہے۔ ﴿وَإِن يَخْذُلْكُمْ﴾ ” اور اگر وہ تمہیں مدد نہ کرے“ یعنی تمہیں تمہارے نفس کے حوالے کر دے ﴿فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ﴾ ” پس کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟“ اس لیے اگر تمام مخلوق بھی تمہاری اعانت پر مجتمع ہوجائے تو پھر بھی تم مدد سے محروم ہوگئے۔ یہ آیت کریمہ اس حکم کو متضمن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے فتح و نصرت طلب کی جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اپنی طاقت و قدرت سے برأت کا اظہار کیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ معمول کو عامل سے قبل لانا حصر کا معنی دیتا ہے۔ یعنی تم صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، کسی اور پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ وہ اکیلا مدد کرنے والا ہے۔ اس لیے اس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توحید ہے اور اس سے مقصود و مطلوب حاصل ہوتا ہے اور کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا شرک ہے اور بھروسہ کرنے والے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ نقصان دہ ہے۔ اس آیت میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے اور بندہ مومن کے ایمان کے مطابق ہی اس کا توکل ہوتا ہے۔