وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ
اور آپ سمندر کو ٹھہرے ہوئے حال میں چھوڑ دیجیے، بے شک وہ لوگ ایک ایسے لشکر کے افراد ہیں جنہیں ڈبو دیا جائے گا
﴿وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾ ” سمندر کو اس کے حال پر کھلا (ساکن)چھوڑ دے۔“ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت نکل پڑے اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ سمندر پر اپنا عصا ماریں، انہوں نے سمندر پر اپنا عصا مارا تو سمندر میں بارہ راستے بن گئے اور سمندر كا پانی ان راستوں کے مابین پہاڑوں کے مانند کھڑا ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر میں سے گزر گئی۔ جب بنی اسرائیل سمندر سے باہر نکل آئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ سمندر کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں، تاکہ فرعون اور اس کے لشکر ان راستوں میں داخل ہوجائیں۔ ﴿إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ ﴾ ” یقیناً وہ ایسا لشکر ہے جو غرق دیا جائے گا۔ “ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر نکل آئی اور فرعون کے لشکر سب کے سب سمندر میں داخل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ اپنی موجوں کے ذریعے سے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ وہ آخری آدمی تک سب غرق ہوگئے اور دنیاوی مال و متاع چھوڑ گئے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنا دیا جو ان کے غلام بن کر رہ رہے تھے۔