فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
پس آپ ان کی طرف سے منہ پھیر لیجیے، اور کہہ دیجیے کہ تمہیں سلام کرتا ہوں، پس انہیں عنقریب اپنا انجام معلوم ہوجائے گا
اس لئے فرمایا : ﴿فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ﴾ ان کی طرف سے آپ کو جوقولی اور فعلی اذیت پہنچتی ہے اس پر ان سے درگزر کیجیے اور ان کو معاف کردیجیے۔ آپ کی طرف سے ان کے لئے سلام ہی ہونا چاہئے جس کے ذریعے سے عقل مند اور اہل بصیرت جاہلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ﴾ (الفرقان :25؍63) ” جب ان سے جہلاء مخاطب ہوتے ہیں۔“ یعنی ایسا خطاب جو ان کی جہالت کے تقاضے پر مبنی ہوتا ہے۔ ﴿قَالُوا سَلَامًا﴾(الفرقان:25؍63) ” تو ان کو کہہ دیتے ہیں ” تمہیں سلام ہو۔ “ پس رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی قوم نے آپ کو جو اذیتیں دیں ان کا عفو و درگزر کے ساتھ سامنا کیا اور آپ ان کے ساتھ صرف حسن سلوک اور حسن کلام سے پیش آئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس مقدس ہستی پر جسے اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم سے مختص فرمایا اور اس کے ذریعے سے زمین و آسمان کے رہنے والوں کو فضیلت بخشی اور آپ اس خلق عظیم کے ذریعے سے ستاروں سے زیادہ بلندیوں پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ تو عنقریب انہیں اپنے گناہوں اور جرائم کا انجام معلوم ہوجائے گا۔