قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ اگر رحمن کی کوئی اولاد (٣٦) ہوتی، تو میں سب سے پہلا اس کی پرستش کرنے والا ہوتا
اے رسول مکرم ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے، حالانکہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے جس نے کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے ﴿قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ ﴾ ” کہہ دیجیے : اگر رحمٰن کے اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا۔“ اس بیٹے کی کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا جزو ہوتا ہے میں تمام مخلوق میں ان تمام اوامر پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں مگر(تم دیکھ رہے ہو کہ) میں اس کا انکار کرنے والا پہلا شخص ہوں اور اس کی نفی کرنے میں سب سے زیادہ سخت ہوں، پس اس سے اس مشرکانہ قول کا بطلان ثابت ہوگیا۔ جو لوگ انبیائے کرام کے احوال کو جانتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء کامل ترین مخلوق ہیں، ہر بھلائی پر عمل کرنے اور اس کی تکمیل کے لئے وہ پیش پیش رہتے ہیں اور ہر برائی کو ترک کرنے، اس کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے میں، سب سے آگے ہیں تو ایسے لوگوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سب سے افضل رسول ہیں، وہ شخص ہوتے جو اس کی عبادت کرتے اور اس کی عبادت کرنے میں مشرکین آپ پر کبھی سبقت نہ لے جاسکتے۔ آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اگر اللہ رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا اولین شخص ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے لئے میری عبادت یہ ہے کہ اس نے جس چیز کا اثبات کیا ہے میں اس کا اثبات کرتا ہوں اور جس چیز کی اس نے نفی کی ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں، پس یہ قولی و اعتقادی عبادت ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ اگر یہ بات حق ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اس کا اثبات کرتا، لہٰذا اس سے اور عقل و نقل کے اعتبار سے مشرکین کے دعوے کا بطلان اور فساد معلوم ہوگیا۔