سورة آل عمران - آیت 145

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کسی جان کو اللہ کے حکم کے بغیر موت (99) نہیں آسکتی، اللہ نے ایک وقت مقرر کردیا ہے، اور جو شخص دنیاوی بدلہ چاہتا ہے تو ہم اسے اس میں سے دیتے ہیں، اور جو اخروی ثواب چاہتا ہے تو ہم اسے اس میں سے دیتے ہیں، اور ہم عنقریب شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس آیت کریمہ میں صدیق اکبر جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب کرام کی فضیلت پر بھی سب سے بڑی دلیل ہے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین کے خلاف جنگ کی، کیونکہ وہ سادات اہل شکر میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے اپنی اپنی اجل کے ساتھ معلق ہیں۔ پس جس کی تقدیر میں موت کا حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اسے بغیر کسی سبب کے بھی موت آ کر رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو باقی رکھنا چاہے، تو پھر اگر موت کے تمام اسباب بھی جمع کیوں نہ ہوجائیں، یہ اسباب وقت مقررہ سے پہلے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر کے اس کو مقدر کردیا ہے اور اس کی موت کا وقت معین اس کی تقدیر میں لکھ دیا۔ ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ (الاعراف :7؍34) ”جب ان کا وقت معین آجاتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کرسکتے ہیں اور نہ جلدی۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ لوگوں کو دنیا و آخرت کا وہی ثواب عطا کرتا ہے جس سے ان کے ارادے متعلق ہوتے ہیں۔ فرمایا :﴿ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ﴾ ” جو کوئی دنیا ہی میں اپنے اعمال کا بدلہ چاہتا ہے ہم اسے وہیں بدلہ دے دیتے ہیں اور جوئی اپنے اعمال کا بدلہ آخرت میں چاہتا ہے ہم اس کو آخرت میں اس کا بدلہ عطا کریں گے۔“ فرمایا : ﴿كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا﴾ (بنی اسرائیل :17؍20۔21) ” ہم ان سب کو تیرے رب کی عطا و بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تیرے رب کی عطا و بخشش ممنوع اور روکی ہوئی نہیں ہے۔ دیکھ ہم نے کیسے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑی اور فضیلت میں بہت بڑھ کر ہے۔ “ فرمایا : ﴿وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴾” اور ہم جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو“ یہاں اللہ تعالیٰ نے جزا کا ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس جزا کی کثرت اور عظمت پر دلیل ہو اور یہ بھی بندے کو معلوم ہوجائے کہ یہ جزا قلت و کثرت اور حسن کے اعتبار سے شکر کی مقدار پر منحصر ہے۔