وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
تم لوگ موت کو سامنے دیکھنے سے پہلے اس کی تمنا کرتے تھے، پس تم لوگوں نے اب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا
دنیا کی تکالیف اور مشکلات، جن کا سامنا بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرنا پڑتا ہے۔ نفس کو ان تکالیف کا عادی بنانے کے لیے ان کی مشق کرواتے وقت اور ان کی معرفت حاصل کرتے وقت اہل بصیرت کی نزدیک اللہ تعالیٰ کی نعمت بن جاتی ہیں جن پر وہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کرتے یہ اللہ تعالیٰ کا افضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسے معاملے میں جس کی وہ خود تمنا کیا کرتے تھے اور اسے حاصل کرنا چاہتے تھے، اس پر ان کے عدم صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ﴾” اور تم تو آرزو کرتے تھے مرنے کی اس کی ملاقات سے پہلے“ اس آیت کریمہ کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے، وہ آرزو کیا کرتے تھے اگر اللہ تعالیٰ انہیں کسی معرکے میں شرکت کا موقع عطا کرے تو وہ اس میں اپنی جان لڑا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : ﴿فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ﴾ یعنی جس چیز کی تم تمنا کیا کرتے تھے تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ﴿وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴾ اب تمہیں کیا ہوگیا تم نے صبر کیوں چھوڑ دیا؟ یہ حالت خاص طور پر اس شخص کے لائق نہیں جو اس کی آرزو کیا کرتا تھا اور اسے وہ چیز حاصل ہوگئی ہو جس کی اسے آرزو تھی۔ اس پر تو واجب یہ ہے کہ اب وہ اس کے لیے اپنی پوری کوشش، جہد اور طاقت صرف کر دے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ شہادت کی تمنا کرنا ناجائز نہیں۔ اس میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی آرزو پر برقرار رکھا اور ان کی آرزو کا انکار نہیں کیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس تمنا کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ان کے عمل نہ کرنے پر نکیر کی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔