وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور ہم نے اسی طرح اپنے حکم سے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے، اور نہ ایمان کو جانتے تھے، لیکن ہم نے قرآن کو نور بنایا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اور اے میرے نبی ! آپ یقیناً لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں
﴿ وَكَذٰلِكَ ﴾ ” اور اسی طرح“ جب ہم نے آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی بھیجی تو ﴿ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ﴾ ” ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح بھیجی۔“ اور وہ روح یہ قرآن کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو روح کے نام سے موسوم کیا کیونکہ روح سے جسم زندہ ہوتا ہے اور قرآن سے قلب و روح زندہ ہوتے ہیں۔ قرآن سے دین و دنیا کے مصالح کو زندگی ملتی ہے کیونکہ اس میں خیر کثیر اور بے پایاں علم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے اہل ایمان بندوں پر ان کی طرف سے کسی سبب کے بغیر محض احسان ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ مَا كُنتَ تَدْرِي ﴾ ” آپ نہیں جانتے تھے۔“ یعنی آپ پر قرآن نازل ہونے سے پہلے ﴿ مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ ” کتاب کو نہ ایمان کو۔“ یعنی آپ کے پاس کتب سابقہ کی خبروں کا علم تھا نہ شرائع الٰہیہ پر ایمان و عمل کا علم بلکہ آپ تو ان پڑھ تھے، لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے، لہٰذا آپ کے پاس یہ کتاب آئی۔ ﴿ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ﴾ ” ہم نے اسے نور اور ہدایت بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔“ جس سے ہمارے بندے کفر و بدعت کی تاریکیوں اور ہلاک کردینے والی خواہشات میں، روشنی حاصل کرتے ہیں، اس کتاب کے ذریعے سے حقائق کو پہچانتے ہیں اور اس کتاب سے راہنمائی حاصل کر کے صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔ ﴿ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ یعنی آپ ان کے سامنے صراط مستقیم واضح کرتے ہیں، صراط مستقیم کی ترغیب دیتے اور اس کے متضاد راستوں پر چلنے سے روکتے اور ان سے ڈراتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا :