وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ (٢٥) اسی کے برابر ہونا چاہیے، پس جو معاف کر دے، اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، وہ بے شک ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عقوبات کے مراتب بیان کئے ہیں، عقوبات کے تین مراتب ہیں : عدل، فضل اور ظلم۔ (1) کسی کمی بیشی کے بغیر، برائی کے بدلے میں اس جیسی برائی، مرتبہ عدل ہے۔ پس جان کے بدلے جان ہے، عضو کے بدلے اس جیسا عضو اور مال کی ضمان اسی جیسا مال ہے۔ (2) برائی کرنے والے کو معاف کر کے اصلاح کرنا مرتبہ فضل ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ ” پس جو کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم اور ثواب جزیل عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے درگزر کرنے میں اصلاح کی شرط دلالت کرتی ہے کہ اگر مجرم عضو کے لائق نہ ہو اور مصلحت شرعیہ اس کو سزا دینے کا تقاضا کرتی ہو تو اس صورت میں وہ عفو پر مامور نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا معاف کرنے والے کو اجر عطا کرنا، کفر پر آمادہ کرتا ہے، نیز اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو وہ اپنے بارے میں چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کرے تو جیسا کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے، لہٰذا اسے بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کو معاف کر دے اور جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی کرے، تب اسے بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی کرے کیونکہ جزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ (3) رہا مرتبہ ظلم تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے : ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴾ ” یقیناً وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ جو دوسروں پر زیادتی کرنے میں ابتدا کرتے ہیں یا جرم کرنے والے سے اس کے جرم سے بڑھ کر بدلہ لیتے ہیں تو یہ زیادتی ظلم ہے۔