سورة آل عمران - آیت 140

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر تمہیں زخم (96) لگا ہے، تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بلدتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ مومنوں کو جان لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے اور اللہ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے اس ہزیمت پر ان کو تسلی دی، جو انہوں نے اٹھائی تھی اور ان عظیم حکمتوں کو بیان کیا جو اس ہزیمت پر مرتب ہوئیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ﴾ یعنی زخم کھانے کے اعتبار سے تم اور وہ برابر ہو۔ مگر تم اللہ تعالیٰ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ﴾النساء :4؍ 104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے اور تم اللہ سے ایسی امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔“ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ مومن و کافر اور نیک و بدسب کو حصہ عطا کرتا ہے اور ان ایام کو لوگوں کے مابین ادلتا بدلتا رہتا ہے آج کامیابی ایک گروہ کے لیے ہے تو کل کسی اور گروہ کے لیے۔ کیونکہ یہ دنیا تو آخر کار ختم ہوجانے والی اور فانی ہے مگر اس کے برعکس آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے اور وہ صرف اہل ایمان کے لیے ہے۔ ﴿وَلِيَعْلَمَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہزیمت اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور منافق کے درمیان فرق واضح ہوجائے، کیونکہ اگر مومنوں کو تمام جنگوں میں فتح ہی حاصل ہوتی رہے تو اسلام میں ایسے لوگ بھی داخل ہوجائیں گے جو اسلام نہیں چاہتے۔ اگر بعض مواقع پر مسلمان آزمائش میں مبتلا ہوں تو حقیقی مومن کا پتہ چل جاتا ہے جو مصیبت و مسرت، فراخی اور تنگی ہر حالت میں اسلام میں رغبت رکھتا ہے۔ ﴿وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ ﴾ ” اور تم میں سے گواہ بنائے۔“ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے، کیونکہ شہادت اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند ترین مرتبہ ہے اور اس کے اسباب کے حصول کے بغیر وہاں تک پہنچنا ناممکن ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت ہے کہ وہ ان کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے جو اگرچہ نفوس کو ناپسند ہوتے ہیں مگر ان اسباب کے ذریعے سے وہ اعلی مراتب اور دائمی نعمتیں حاصل کرلیتے ہیں جو انہیں پسند ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ  ﴾” اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَـٰكِن كَرِهَ اللَّـهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ ﴾ (التوبہ: 9؍46) ” اگر وہ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس کے لیے سامان تیار کرتے مگر اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ آیا اور ان کو اس سے باز رکھا اور کہا گیا کہ معذور بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ “