ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہی وہ نعمت ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، آپ کہہ دیجیے کہ میں اللہ کی پیغام رسانی پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہوں، صرف قرابت کی محبت چاہتا ہوں، اور جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے، ہم اس میں اپنی طرف سے ایک نیکی کا اضافہ کردیتے ہیں، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، نیک کاموں کا بڑا قدر دان ہے
﴿ ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللّٰـهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” یہی وہ ہے جس کی اللہ اپنے بندوں کو، جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے۔“ یہ عظیم خوشخبری جو بلاشبہ علی الاطلاق سب سے بڑی خوشخبری ہے، جس سے رحمان و رحیم نے مخلوق میں سے بہترین ہستی کے ذریعے سے، ایمان اور عمل صالح کے حاملین کو سرفراز فرمایا ہے۔ یہ جلیل ترین غایت مقصود ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا وسیلہ افضل ترین وسیلہ ہے۔ ﴿ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ ﴾ ” آپ کہہ دیجیے ! میں اس پر تم سے کوئی سوال نہیں کرتا۔“ یعنی تمہیں یہ قرآن پہنچانے اور تمہیں اس کے احکام کی طرف دعوت دینے پر ﴿ أَجْرًا ﴾ ” اجرکا“ میں تم سے تمہارا مال لینا چاہتا ہوں نہ تمہارا سردار بننا چاہتا ہوں اور نہ میری کوئی اور ہی غرض ہے ﴿ إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ﴾ ” مگر قرابت داری کی محبت“ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد ہو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے ایک اجر کے، وہ تمہارے ہی لئے ہے، اس کا فائدہ بھی تمہیں ہی پہنچتا ہے، یعنی تم مجھ سے رشتہ داری کی وجہ سے محبت کرو اور یہ مودت، ایمان کی مودت سے زائد چیز ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی مودت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد رسول کی محبت کو تمام محبتوں پر مقدم رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایمان کی محبت سے زائد قرابت داری کی بنا پر اس سے محبت کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب ترین رشتہ داروں تک اپنی دعوت پہنچائی حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ قریش کے گھرانوں میں کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رشتہ داری نہ ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی مودت و محبت ہو اور یہ ایسی محبت ہے جس کی مصاحبت میں تقرب الٰہی اور توسل ہوتے ہیں جن کی بنیاد اطاعت ہے جو اس مودت و محبت کی صحت و صداقت کی دلیل ہے، اسی لئے فرمایا : ﴿ إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرنے کے لئے۔ دونوں اقوال کے مطابق، یہ استثناء اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے اس پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے، سوائے اس چیز کے کہ جس کا فائدہ خود تمہی کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ کسی بھی طرح کوئی اجر نہیں بلکہ یہ تو ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اجر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ (البروج :85؍8) ” اور وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لائے جو زبردست، نہایت قابل تعریف ہے“ اور جیسے کسی کا یہ کہنا : تمہارے نزدیک فلاں شخص کا بس یہی گناہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنے والا ہے۔ ﴿ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً ﴾ ” اور جو کوئی نیکی کا کام کرے گا۔“ یعنی نماز، روزہ اور حج پر کار بند رہتا ہے اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔ ﴿ نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ﴾ ” ہم اس کے لئے اس میں بھلائی بڑھا دیں گے۔“ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو کھول دیتا ہے، اس کے معاملے کو آسان کردیتا ہے اور یہ نیکی کسی دوسرے نیک عمل کی توفیق کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس ذریعے سے مومن کے اعمال صالحہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک اس کا مرتبہ بلند ہوجاتا ہے اور وہ دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بہت قدر دان ہے“ وہ توبہ کرنے پر تمام بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ وہ تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ اجر عطا کر کے اس عمل کی قدر دانی کرتا ہے، پس وہ اپنی مغفرت کے ذریعے سے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور عیبوں کو چھپاتا ہے اور اپنی قدر دانی کی بنا پر نیکیوں کو قبول کر کے ان میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔