تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ۖ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ
اے میرے نبی ! آپ اس دن ظالموں (١٧) کو اپنے کرتوتوں کی بدولت خائف دیکھیں گے، اور اس کا وبال ان پر آکر رہے گا، اور جو لوگ ایمان لائے، اور انہوں نے عمل صالح کیا، وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے، یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے رب کے پاس انہیں ملے گا، یہی اللہ کا بڑا فضل ہے
اس روز ﴿ تَرَى الظَّالِمِينَ ﴾ ” تم ظالموں کو دیکھو گے۔“ جنہوں نے کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ﴿ مُشْفِقِينَ ﴾ یعنی ڈر رہے ہوں گے ﴿ مِمَّا كَسَبُوا ﴾ ” اس (انجام) سے جو انہوں نے (اپنے اعمال سے) کمایا۔“ کہ انہیں اپنی بد اعمالیوں کی سزا ملے گی۔ چونکہ ڈرنے والے کے ساتھ کبھی تو وہ چیز پیش آجاتی ہے جس سے ڈرتا ہے اور کبھی وہ چیز پیش نہیں آتی اس لئے آگاہ فرمایا کہ وہ ﴿ وَاقِعٌ بِهِمْ﴾ عذاب ان پر ضرور واقع ہوگا جس سے وہ ڈرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس کامل سبب کو اختیار کیا ہے جو عذاب کا موجب ہے اور اس موجب عذاب کا کوئی معارض بھی نہیں، مثلاً، توبہ وغیرہ، مزید برآں وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں مہلت کا وقت گزر گیا ہے۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا ﴾ اور وہ لوگ جو اپنے دل سے اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کا اظہار کیا ﴿ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور عمل کئے نیک“ اس میں اعمال قلوب، اعمال جوارح، اعمال واجبہ اور اعمال مستحبہ سب شامل ہیں لہٰذا یہ لوگ ﴿ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ﴾ ” بہشتوں کے باغات میں ہوں گے۔“ یعنی وہ ان باغات میں ہوں گے جو جنت کی طرف مضاف (منسوب) ہیں اور مضاف، مضاف الیہ کے مطابق ہوتا ہے۔ مت پوچھئے ! ان خوبصورت باغات کی خوبصورتی، ان میں اچھل اچھل کر بہتی ہوئی ندیاں، بیلوں سے ڈھکے ہوئے درختوں کے جھنڈ، حسین مناظر، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، چہچہاتے ہوئے پرندے، طرب انگیز آوازیں، تمام دوستوں سے ملاقاتیں اور اس ہم نشینی سے حاصل ہونے والا بہرۂ کامل کیسا ہوگا؟ وہ ایسے باغات ہوں گے کہ دور دور تک حسن ہی حسن ہوگا، ان باغات کے رہنے والوں میں ان باغات کی لذتوں کی چاہت اور اشتیاق میں اضافہ ہوگا۔ ﴿ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ ﴾ یعنی ان باغات میں وہ جس چیز کا ارادہ کریں گے وہ فوراً انہیں حاصل ہوگی اور جب بھی طلب کریں گے حاضر کردی جائے گی جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے طائر خیال میں اس کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾ ” یہی ہے بہت بڑا فضل۔“ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیابی اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر میں اس کے تقرب کی نعمت سے بہرہ مند ہونے سے بڑھ کر بھی کوئی فضل ہے؟