وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور ہم نے دنیا میں کچھ شیطانوں کو ان کا ساتھی (١٧) بنا دیا تھا، پس انہوں نے ان کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا دیا، اور جنوں اور انسانوں کو جو کافر قومیں ان سے پہلے گذر چکی تھیں، ان کے ساتھ ان کے حق میں بھی عذاب کا فیصلہ ثابت ہوگیا، بے شک وہ تمام گھاٹا پانے والے تھے
یعنی ہم نے حق کا انکار کرنے والے ان ظالموں کے لئے ﴿قُرَنَاءَ ﴾ ” ہم نشین“ شیاطین کو ساتھی مقرر کردیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا﴾(مریم:19؍83) ” کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کفار کی طرف شیاطین کو بھیجتے ہیں جو انہیں برائی پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ انہیں گناہ کا ارتکاب کرنے کے لئے بے قرار رکھتے ہیں اور ان کو بہکاتے رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان شیاطین نے مزین کردیا ﴿ لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ” ان کے لئے جو ان کے آگے تھا اور جو ان کے پیچھے تھا، پس ان شیاطین نے دنیا اور اس کی خوبصورتی کو ان کی آنکھوں کے سامنے مزین کردیا اور انہیں اس کی لذات و شہوات محرمہ کے حوالے کردیا، یہاں تک کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا اقدام کیا اور جیسے چاہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے خلاف جنگ کی راہ چل نکلے اور انہوں نے آخرت کو ان سے دور کردیا اور اس کی یاد کو فراموش کرا دیا۔ بسا اوقات آخرت کے وقوع کے بارے میں ان کے دلوں میں شبہات پیدا کئے جس سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف چلا گیا اور وہ ان کو لے کر کفر، بدعات اور معاصی کی راہوں پر گامزن ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان مکذبین حق پر شیاطین کو مسلط کرنا، ان کی اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی آیات سے روگردانی اور ان کے انکار حق کے سبب سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ﴾ (الزخرف:43؍36۔37)” اور جو شخص رحمان کے ذکر سے غفلت برتتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ یہ شیاطین انہیں راہ راست پر چلنے سے روک دیتے ہیں جبکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ راہ راست پر چل رہے ہیں۔“ ﴿ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ” اور ان پر حکم الٰہی ثابت ہوگیا“ یعنی اللہ تعالیٰ کا قول ان پر واجب ہوگیا اور اس کی قضا و قدر کا فیصلہ، عذاب کے ساتھ ان پر نازل ہوگیا۔ ﴿فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ﴾ ” جنوں اور انسانوں کی جماعتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکیں (جن پر بھی اللہ کا وعدہ پورا ہوا) کہ بے شک یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ جو اپنے دین اور آخرت کے بارے میں گھاٹے میں پڑگئے اور جو شخص گھاٹے میں پڑجائے تو اسے ذلت اور عذاب کا سامنا کرناپڑتا ہے۔