فَإِن يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ۖ وَإِن يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِينَ
پس ! اگر یہ لوگ صبر کریں، تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور اگر (اللہ کو) راضی کرنا چاہیں گے تو انہیں (اس کی) رضا مندی حاصل نہیں ہوگی
﴿فَإِن يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ﴾ ” اب اگر یہ صبر کریں (یا نہ کریں)ان کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے۔“ اس پر کسی بھی حالت میں صبر نہیں ہوگا۔ اگر کسی حال میں صبر کا امکان فرض کرلیا جائے تاہم آگ کے سامنے صبر کرنا ممکن نہیں اور اس آگ پر صبر کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے جس کی حرارت بے انتہا شدید ہے، اس کی حرارت دنیا کی آگ کی حرارت سے ستر گنا زیادہ ہے۔ اس کا پانی شدید گرم ہوگا، اس کی پیپ بے انتہا بدبو دار ہوگی، جہنم کے ٹھنڈے طبقے کی ٹھنڈک کئی گنا زیادہ ہوگی، اس کی زنجیریں، طوق اور گرز بہت بڑے ہوں گے۔ اس کے داروغے نہایت درشت مزاج ہوں گے اور ان کے دلوں سے ہرقسم کا رحم نکل چکا ہوگا اور آخری چیز یہ کہ جبار کی سخت ناراضی ہوگی، چنانچہ جب وہ اسے مدد کے لئے پکاریں گے تو وہ فرمائے گا : ﴿قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴾(المؤمنون:23؍108) ” دفع ہوجاؤ، اسی میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔ “ ﴿وَإِن يَسْتَعْتِبُوا﴾ ” اگر وہ توبہ کرنا چاہیں“ یعنی اگر وہ عتاب الٰہی کا ازالہ چاہتے ہوئے درخواست کریں گے کہ انہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے تاکہ وہ نئے سرے سے عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراض کو دور کرسکیں ﴿فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِينَ﴾ ” تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔“ کیونکہ اس کا وقت گزر چکا ہوگا۔ اس گزرے ہوئے عرصے کے دوران ان کو غور و فکر کا موقع دیا گیا اور ان کے پاس برے انجام سے خبردار کرنے والے بھی آئے۔ ان کی حجت منقطع ہوگئی، نیز ان کی عتاب دور کرنے کی التجا بھی محض جھوٹ ہے۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾(الانعام:6؍28) ” اگر ان کو لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا اور بے شک یہ جھوٹے ہیں۔ “