اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
اللہ نے ہی تمہارے لئے رات (٣٤) بنائی ہے تاکہ تم اس میں آرام کرو، اور اسی نے دن کو روشن بنایا ہے، بے شک اللہ انسانوں پر فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر گذار نہیں ہوتے
آیات کریمہ میں غور و فکر کیجیے، جو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں رحمت، اس کے لامحدود و فضل و کرم، اس کے لئے و جوب شکر، اس کی قدرت کاملہ، اس کی عظیم طاقت، اس کے وسیع اقتدار، تمام اشیا کو اس کے تخلیق کرنے، اس کی حیات کاملہ اور اس کی تمام صفات کاملہ اور افعال حسنہ سے موصوف ہونے کی بنا پر ہر قسم کی حمد و ثنا سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس کی کامل ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کے متفرد ہونے پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام تدابیر، ماضی، حال اور مستقبل کے اوقات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ہستی کو کوئی قدرت و اختیار نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے اس کے سوا جس طرح کوئی ہستی ربوبیت کی مستحق نہیں اسی طرح عبودیت کی بھی مستحق نہیں۔ یہ حقیقت اس امر کا موجب ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کے خوف اور اس پر امید سے لبریز ہوں۔ یہ دو امور ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق فرمایا اور وہ ہیں معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی یہی دو امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقصد قرار دیا ہے یہی دو امور ہر قسم کی بھلائی، خیر و فلاح، دینی اور دنیاوی سعادت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، یہی دو امور اللہ کریم کی طرف سے پانے بندوں کے لئے بہترین عطیہ ہیں اور یہی دو امور علی الاطلاق لذیذ ترین چیزیں ہیں۔ اگر بندہ ان دو چیزوں سے محروم ہوجائے تو وہ ہر خیر سے محروم ہو کر ہر شر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی معرفت اور محبت سے لبریز کر دے، ہماری باطنی اور ظاہری تمام حرکات صرف اس کی رضا کے لئے اور صرف اسی کے حکم کے تابع ہوں، کوئی سوال اس کے لئے پورا کرنا مشکل ہے نہ اس کی کوئی عطا اسے لاچار کرسکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ﴾ “ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری خاطر رات کو سیاہ بنایا ﴿لِتَسْكُنُوا فِيهِ﴾ ” تاکہ تم اس میں آرام کرسکو“ تاکہ تم اپنی حرکات سے سکون پاؤ۔ اگر یہ حرکات دائمی ہوتیں تو تمہیں نقصان پہنچتا۔ سکون کے حصول کے لئے تم اپنے بستروں میں پناہ لیتے ہو، اللہ تعالیٰ تم پر نیند طاری کردیتا ہے جس سے انسان کا قلب و بدن آرام پاتے ہیں۔ نیند انسانی ضروریات کا حصہ ہے انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور رات کے وقت ہر حبیب اپنے حبیب کے پاس آرام کرتا ہے، فکر مجتمع ہوتی ہے اور مشاغل کم ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ بنایا اللہ تعالیٰ نے ﴿النَّهَارَ مُبْصِرًا﴾ ” دن کو کھلانے والا“ یعنی روشنی والا جو اپنے مدار میں رواں دواں سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے اور تم اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے روز مرہ کے دینی اور دنیاوی امور میں مشغول ہوجاتے ہو، کوئی ذکر اور قراءت قرآن میں مشغول ہے، کوئی نماز پڑھ رہا ہے، کوئی طلب علم میں مصروف ہے اور کوئی خرید و فروخت اور کاروبار کر رہا ہے کوئی معمار ہے تو کوئی لوہار سب اپنے کام اور صنعت میں مصروف ہیں۔ کوئی بری یا بحری سفر کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی کے کاموں میں لگ گیا ہے تو کوئی اپنے جانوروں اور مویشیوں کے بندوبست میں مصروف ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَذُو فَضْلٍ﴾ ” بے شک اللہ فضل والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ عظیم فضل و کرم کا مالک ہے جیسا کہ اس )فَضْل) کی تنکیر دلالت کرتی ہے۔ ﴿عَلَى النَّاسِ ﴾ ” تمام لوگوں پر۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان مذکورہ اور دیگر نعمتوں سے نوازا اور ان سے مصائب کو دور کیا اور یہ چیز ان پر کامل شکر اور کامل ذکر کو واجب کرتی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴾ مگر اکثر لوگ اپنے ظلم اور جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتے جیسا کہ فرمایا : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴾(السبا:34؍13) “” اور میرے بندوں میں کم ہی لوگ شکر گزار ہوتے ہیں“ جو اپنے رب کی نعمت کا اقرار کر کے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں، ان نعمتوں کو اپنے آقا کی رضا کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ ﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ” یہ ہے“ وہ ہستی جس نے ان تمام امور کی تدبیر کی ہے اور تمہیں ان نعمتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ ﴿ اللّٰـهُ رَبُّكُمْ ﴾ ” اللہ تمہارا رب ہے“ ﴿فَتَبَارَكَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” پس تمام جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے“ جس کی بھلائی اور احسانات بہت زیادہ ہیں جو تمام جہانوں کی اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تربیت کرتا ہے۔