لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
ان کافروں کے معاملہ میں آپ کا کوئی اختیار (91) نہیں ہے، چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا چاہے تو انہیں عذاب دے، اس لیے کہ وہ ظالم ہیں
جب جنگ احد کے سنگین واقعات پیش آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مصائب پیش آئے، جن کی وجہ سے اللہ نے آپ کا مقام مزید بلند فرما دیا۔ اس موقع پر آپ کا سرمبارک زخمی ہوا، اور دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((کیف یفلح قوم شجوا نبیھم)) (١) ” وہ قوم کس طرح فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے اپنے نبی کو زخمی کردیا۔“ [صحيح مسلم، الجهاد، باب غزوة احد، ح: 1791] اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے سرداروں کے حق میں بد دعا بھی فرمائی۔ مثلاً ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما کر آپ کو ان کے خلاف دعا کرنے، انہیں لعنت کرنے، ان کے لیے رحمت سے دوری کی درخواست کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا : ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ﴾” آپ کے اختیار میں کچھ نہیں“ آپ کے فرائض صرف یہ ہیں کہ تبلیغ کریں، مخلوق کی رہنمائی فرمائیں اور ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ باقی معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے تدبیر فرماتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ہدایت نصیب فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ آپ انہیں بد دعائیں نہ دیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہوگا تو ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں اسلام کی نعمت عطا فرما دے گا اور اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوا تو انہیں ہدایت سے محروم فرما کر کفر میں پڑا رہنے دے گا۔ اس صورت میں اپنے نقصان کا باعث اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے وہی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان معین افراد کو اور دوسروں کو بھی ہدایت نصیب فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا اختیار بندوں کے اختیار پر غالب ہے۔ بندے کا درجہ جتنا بھی بلند ہو، اس سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک چیز کو بہت بہترسمجھ کر منتخب کرے حالانکہ بہتری اور مصلحت دوسری چیز میں ہو۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم معاملات میں اختیار نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا دوسرے افراد بدرجہ اولیٰ اختیار سے محروم ہوں گے۔ اس میں انبیاء و اولیاء سے حاجتیں مانگنے والوں کی سخت تردید ہے اور یہ وضاحت ہے کہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا شرک فی العبادت ہے، جو ان لوگوں کی کم عقلی کو ظاہر کرتا ہے کہ جس ہستی کے ہاتھ میں سب اختیارات میں اسے چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں جو ذرہ برابر اختیار نہیں رکھتے، یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ غور کیجیے جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا تو فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ (یعنی یہ فرمایا کہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے) اس کا کوئی سبب بیان نہیں فرمایا جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ تاکہ یہ ثابت ہو کہ نعمت تو بندے پر اللہ کا خالص فضل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ بندے کی طرف سے پہلے کوئی عمل ہوا ہو جو اس نعمت کا سبب بنے نہ کسی وسیلے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب عذات کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی ان کے ظلم کا ذکر فرمایا اور فائے سببیہ کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ عذاب کا سبب ان کا ظلم ہے۔ ارشاد ہے : ﴿ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ ” یا ان کو عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں“ تاکہ اس سے اللہ کا کامل عدل او اس کی کامل حکمت ظاہر ہو، کہ اس نے سزا کو مناسب مقام پر رکھا اور بندے پر ظلم نہیں کیا، بلکہ بندے نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔