سورة غافر - آیت 55

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اے میرے نبی ! آپ صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیے، اور شام کو اور صبح کے وقت اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرتے رہیے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَاصْبِرْ ﴾ ”)اے رسول !( صبر کیجیے“ جس طرح آپ سے پہلے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔“ یعنی اللہ کے وعدے میں کوئی شک و شبہ ہے نہ اس میں کسی جھوٹ کا شائبہ جس کی بنا پر صبر کرنا آپ کے لئے مشکل ہو، یہ تو خالص حق اور ہدایت ہے جس کے لئے صبر کرنے والے صبر کرتے ہیں اور اہل بصیرت اس سے تمسک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ان اسباب کے زمرے میں آتا ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ امور سے رکنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ﴾ ” اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔“ یعنی جو آپ کے لئے فوز و فلاح اور سعادت کے حصول سے مانع ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا جو محبوب و مرغوب کے حصول کا ذریعہ ہے اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا جو مکر وہ کو دور کرنے کا ذریعہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا خاص طور پر ﴿بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾ ” صبح اور شام کو“ جو بہترین اوقات ہیں اور یہی اوقات واجب اور مستحب اور اذکار وظائف کے اوقات ہیں کیونکہ ان اوقات میں تمام امور کی تعمیل میں مدد لیتی ہے۔