سورة غافر - آیت 35

الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یعنی ان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو بغیر کسی دلیل (٢٠) کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، بہت ہی قابل نفرت ہے یہ بات اللہ کے نزدیک اور اہل ایمان کے نزدیک اللہ اسی طرح تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حد سے گزرنے والے شکی شخص کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں“ جن آیات کی وجہ سے حق اور باطل میں امتیاز ہوا اور ظاہر و باہر ہونے کی بنا پر ایسے تھیں جیسے نگاہ کے لئے سورج۔ وہ ان آیات کے روشن اور واضح ہونے کے باوجود ان کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ ان کا ابطال کرسکیں۔ ﴿بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ﴾ ” بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند (دلیل) آئی ہو۔“ یعنی بغیر کسی حجت و برہان کے۔ یہ ہر اس شخص کا وصف لازم ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑتا ہے کیونکہ دلیل کے ساتھ جھگڑنا ممکن نہیں کوئی چیز حق کا سامنا نہیں کرسکتی اور یہ ممکن نہیں کہ وہ دلیل شرعی یا دلیل عقلی حق کے معارض ہو۔ ﴿ كَبُرَ ﴾ یہ قول بڑی ناراضی والا ہے جو باطل کے ذریعے سے حق کو ٹھکرانے کو متضمن ہے ﴿مَقْتًا عِندَ اللّٰـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”(سخت) ناپسندیدہ ہے یہ رویہ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک“ اللہ تعالیٰ ایسی بات کہنے والے پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اس لئے ان کی ناراضی اس شخص کی قباحت اور برائی کی دلیل ہے جس پر یہ ناراض ہوں۔ ﴿كَذٰلِكَ﴾ یعنی اس طرح جیسے آل فرعون کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ﴿يَطْبَعُ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ﴾ ” اللہ ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے“ جو حق کو ٹھکرا کر اپنے رویے میں تکبر کا اظہار کرتا ہے، اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آ کر تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے ظلم اور تعدی کی کثرت کی بنا پر جابروں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔