بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ
ہاں، اگر تم لوگ صبر کرو گے، اور اللہ سے ڈرو گے، اور تمہارے دشمن جوش میں آ کر تم تک آجائیں گے، تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان لگے ہوئے فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا
﴿بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا ﴾ ” بلکہ اگر تم صبر اور پرہیز گاری کرو، اور وہ اپنے اس جوش سے تمہارے مقابلے میں آئیں۔“ (من فورھم ھذا) کا مطلب ہے (من مقصدھم ھذا) ” اپنے کسی ارادے اور عزم کے ساتھ“ اس سے غزوہ بدر مراد ہے۔ ﴿يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴾ ” تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا، جو نشان دار ہوں گے“ یعنی ان پر بہادروں کا خصوصی نشان ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کی مدد کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں : صبر، تقویٰ اور مشرکین کا فوری جوش و جذبہ کے ساتھ آنا۔ یہ وعدہ مذکورہ بالا فرشتوں کے بطور امداد فوج کے نازل ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن فتح اور دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی کے لیے اللہ نے پہلی دو شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ جیسے کہ پہلے فرمان الٰہی گزرا ہے۔ ﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ ﴾ (ال عمران :3؍ 120) ” اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کے منصوبے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے“