وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ (٧٤) کرو، تو سب نے (٧٥) سجدہ کیا، مگر ابلیس (٧٦) نے انکار کردیا، اور استکبار سے کام لے، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں (٧٧) میں سے تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اظہار کے لئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ﴾سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا : ﴿ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل :61؍17)” کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔“ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدم علیہ السلام سے اس کی عداوت ظاہر ہوگئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہوگیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ (2) بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سر تسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔ (3) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انہیں تعلیم دی اور جس کا انہیں علم نہ تھا اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدم علیہ السلام کو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ (ج) جب آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تکریم کے لئے اسے سجدہ کریں۔ (د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں، پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔ (ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدم علیہ السلام کی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔