أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ
کیا انہوں نے زمین کی سیر (١٢) کرکے دیکھا نہیں کہ ان کافروں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، وہ لوگ ان سے زیادہ طاقت والے، اور زمین میں اپنے آثار کے طور پر زیادہ عمارتوں اور قلعوں والے تھے، پس اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑ لیا، اور اللہ سے ان کو بچانے والا کوئی نہیں ملا
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں؟“ یعنی انہوں نے اپنے قلوب و ابدان کے ساتھ، گزشتہ قوموں کے آثار میں غور و فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کے لئے چل پھر کر نہیں دیکھا؟ ﴿فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” تاکہ وہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟“ یعنی جو ان سے پہلے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے تھے۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا بدترین انجام ہو اور وہ تباہ و برباد کردیئے گئے اور انہیں فضیحت اور رسوائی کاسامنا کرناپڑا، حالانکہ ﴿ كَانُوا ﴾ وہ ان لوگوں سے زیادہ طاقتور تھے، یعنی وہ تعداد، ساز و سامان اور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھے۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ بہت زیادہ تھے﴿آثَارًا فِي الْأَرْضِ﴾ ” زمین میں )چھوڑے ہوئے) آثار کے لحاظ سے“ یعنی عمارات اور باغات وغیرہ کے لحاظ سے انہوں نے بہت زبردست آثار زمین میں چھوڑے۔ آثار کی قوت آثار چھوڑنے والے کی قوت اور اس کی شان و شوکت پر دلالت کرتی ہے۔