سورة غافر - آیت 9

وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تو انہیں گناہوں کی سزا سے بچالے، اور جس کو تو اس دن گناہوں کی سزا سے بچا لے گا، اس پر تو نے رحم فرما دیا، اور یہی عظیم کامیابی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ﴾ ” اور انہیں برائیوں سے بچا لے“ یعنی تو ان کو برے اعمال اور ان کی جزا سے دور رکھ کیونکہ یہ انسان کو بہت تکلیف دیتے ہیں۔ ﴿وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ﴾ ” اور جس کو تو اس دن عذابوں سے بچا لے گا“ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ﴾ ” تو بے شک تو نے اس پر رحمت کی“ کیونکہ تیری رحمت تیرے بندوں پر ہمیشہ سایہ کناں رہی ہے، بندوں کے گناہ اور ان کی برائیاں ہی انہیں اس رحمت سے محروم کرتے ہیں۔ جس کو تو نے برائیوں سے بچا لیا اسے تو نے نیکیوں کی توفیق اور ان کی جزائے حسن سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذٰلِكَ﴾ ” اور یہ“ یعنی منہیات کا دور ہونا، برائیوں سے بچانا اور محبوب و مرغوب کا حاصل ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے۔ ﴿هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی بڑی کامیابی ہے۔“ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں اور مقابلہ کرنے والوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ فرشتوں کی یہ دعا اس حقیقت کو متضمن ہے کہ فرشتے اپنے رب کی کامل معرفت سے سرفراز ہیں وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے اسما کو وسیلہ بنانے اور جو دعا مانگی جا رہی ہو اس کی مناسبت سے اسمائے الٰہی کو وسیلہ بنانے کو پسند کرتا ہے۔ بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور نفوس بشری کے تقاضوں کے اثرات کے ازالے کے لئے ہوتی ہے، جن کے نقص اور ان کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، لہٰذا جب وہ ان معاصی اور ان کے مبادی و اسباب کا تقاضا کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات ” رَحِیْمٌ“ اور ” عَلِیْمٗ“ کو وسیلہ دعا بنایا ہے۔ اس کی ربوبیت عامہ اور ربوبیت خاصہ کا اقرار ان کے اللہ تعالیٰ کے متعلق کمال ادب کو متضمن ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں یہ تو ان کی اپنے رب کے سامنے دعا ہے جو ہر لحاظ سے ایک محتاج ہستی سے صادر ہوتی ہے، جو کسی بھی حال کو اپنا وسیلہ نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم و احسان ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ان کی موافقت، ان اعمال، یعنی عبادات سے محبت کو متضمن ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدوجہد کی طرح جدوجہد کرتے ہیں، وہ ہیں اہل ایمان۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق میں سے انہی سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مکلّف مخلوق کو ناپسند کرتا ہے مگر ان میں سے اہل ایمان کو پسند کرتا ہے۔ فرشتوں کی اہل ایمان کی ساتھ محبت ہے کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، ان کے احوال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی شخص کے لئے دعا کرنا، اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اس شخص سے محبت کرتا ہے کیونکہ انسان صرف اسی کے لئے دعا مانگتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشاد : ﴿وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ کے بعد فرشتوں کی دعا کی تفصیل اور شرح بیان کرنا کتاب اللہ میں تدبیر کی کیفیت کی طرف لطیف اشارے کو متضمن ہے، نیز یہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ تدبر کرنے والا صرف مفرد لفظ کے معنی پر اقتصار نہ کرے، بلکہ اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ لفظ کے معنی پر خوب تدبر اور غور و فکر کرے۔ جب اچھی طرح معنی کا فہم حاصل کرلے اپنی عقل سے اس معاملے میں غور کرے، ان طریقوں پر غور کرے جو اس منزل تک پہنچاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ ناتمام ہے اور جن پر تمام دار و مدار ہے۔ اس کو یقین قطعی ہوجائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، جیسا کہ اسے یقین ہے کہ وہ معنی خاص اللہ تعالیٰ کی مراد ہے جس پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ وہ چیز جو اس کے لئے اس یقین کی موجب ہے کہ یہی معنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، دو امور ہیں : 1۔ معرفت اور اس بات کا یقین کہ یہ معنی کے توابع میں سے ہے اور مراد الٰہی اسی پر موقوف ہے۔ 2۔ اس حقیقت کا علم رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی کتاب میں تدبر و تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان معانی سے کیا لازم آتا ہے۔ اسی نے خبر دی ہے کہ اس کی کتاب سراسر ہدایت، نور اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، یہ فصیح ترین اور ایضاح کے اعتبار سے جلیل ترین کلام ہے۔ اس سے بندہ مومن توفیق الٰہی کے مطابق علم عظیم اور خیر کثیر سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ ہماری اس تفسیر میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ کبھی کبھی بعض آیات میں صحیح الفکر مگر غور و تدبر سے محروم شخص پر اس کا ماخذ مخفی رہتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دے جو ہمارے احوال اور تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح کا سبب بنیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، اس کے احسان کو وسیلہ بناتے ہیں، جس سے ہر آن اور ہر لحظہ بہرہ مند رہتے ہیں۔ ہم اس سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، یقیناً ہمارے نفس کی برائی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم اور عطا کرنے والا ہے جس نے ہمیں اسباب اور ان کے مسببات عطا کئے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو متضمن ہے کہ مومن کے ساتھ رہنے والے اشخاص، مثلاً بیوی، اولاد اور دوست بھی اس کی صحبت کے باعث سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ مومن کی صحبت ان کے لئے ایسی بھلائی کے حصول کا سبب بنتی ہے جو اس کے عمل اور اسباب عمل سے خارج ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان اور ان کے نیک والدین، ان کی نیک بیویوں اور ان کی نیک اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے ماں باپ، بیویوں اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَن صَلَحَ ﴾ کے مطابق ” صلاحیت“ کا وجود لازم ہے تب اس صورت میں، ان کے لئے فرشتوں کی یہ دعا، ان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم