اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
اللہ نے سب سے اچھا کلام ( ١٧) نازل فرمایا ہے، یعنی ایک کتاب جس کی آیتیں معانی میں ملتی جلتی ہیں، جنہیں بار بار دہرایا جاتا ہے، جنہیں سن کر ان لوگوں کے بدن کانپ جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف مائل ہوتے ہیں، یہ قرآن اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے راہ حق دکھاتا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کے بارے میں، جسے اس نے نازل فرمایا خبر دیتا ہے کہ یہ کتاب علی الاطلاق ﴿أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ ” بہترین کلام ہے۔“ پس بہتر کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے نازل کی گئی کتابوں میں بہترین کتاب یہ قرآن کریم ہے۔ جب قرآن کریم بہترین کتاب ہے تب معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ فصیح ترین اور واضح ترین اور اس کے معانی جلیل ترین ہیں، کیونکہ یہ اپنے الفاظ اور معانی میں بہترین کلام ہے۔ اپنے حسن تالیف اور ہر لحاظ سے عدم اختلاف کے اعتبار سے اس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے مشا بہت رکھتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی اس میں غور و فکر کرے تو اسے اس میں ایسی مہارت اس کے معانی میں ایسی گہرائی نظر آئے گی جو دیکھنے وا لوں کو حیران کردیتی ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ (بے عیب) کلام حکمت اور علم وا لی ہستی کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتا۔ اس مقام پر تشا بہ سے یہی مراد ہے ۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾(آل عمران:3؍7) وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں تو اس سے مراد وہ آیات کر یمہ ہیں جو بہت سے لوگوں کے فہم سے پو شیدہ اور مشتبہ ہوتی ہیں۔ یہ اشتبا ہ اس و قت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو آیات محکمات کی طرف نہ لو ٹا یا جائے اس لیے فرمایا: ﴿مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾ (آل عمران:3؍7) اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں۔ اس آیت کر یمہ میں بعض آیات میں تشا بہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں تمام آیات کو متشا بہ کہا ہے یعنی حسن میں مشا بہ ہیں کیونکہ ارشاد فرمایا :﴿ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ نہایت اچھی باتیں اس سے مراد تمام آیات اور سورتیں ہیں جو ایک دوسری سے مشابہت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ گز شتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ ﴿ مَّثَانِيَ﴾ دہرائی جاتی ہیں۔ یعنی اس بہترین کلام میں قصص واحکام وعد و وعید اہل خیر کے اوصاف اور اہل شر کے اعمال کو بار بار دہرایا جاتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس کلام کا حسن و جلال ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ مخلوق اس کلام کے معانی کی محتاج ہے جو دلوں کو پاک اور اخلاق کی تکمیل کرتے ہیں اس لیے اس نے ان معانی کو دلوں کے لیے وہی حیثیت دی ہے جو درختوں اور پودوں کے لیے پانی کی ہے، جس طرح درخت اور پودے عدم سیر ابی کے با عث نا قص بلکہ بسا اوقات تلف ہوجاتے ہیں اور پو دوں کو جتنا زیادہ بار بار سیر اب کیا جائے گا اتنے ہی وہ خوبصورت ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ پھل لائیں گے اسی طرح دل بھی کلام اللہ کے معانی کے تکرار کے ہمیشہ محتاج رہتے ہیں۔ اگر تمام قرآن میں ایک معنی اس کے سامنے ایک ہی مر تبہ بیان کیا جائے تو معنی اس کی گہرائی میں جا گزیں ہوگا نہ اس سے مطلو بہ نتائج ہی حا صل ہوں گے۔ بنا بریں میں اپنی تفسیر میں قرآن مجید کے اسلوب کی اقتدا میں اسی مسلک کریم پر گامزن ہوں اس لیے آپ کسی بھی مقام پر کوئی حو الہ نہیں پائیں گے بلکہ آپ ہر مقام پر گزشتہ صفحات میں اس سے ملتے جلتے مقام کی تفسیر کی رعا یت رکھے بغیر اس کی مکمل تفسیر پائیں گے اگرچہ بعض مقامات پر نسبتاً زیادہ بسط و شرح سے کام لیا گیا اور اس میں فوائد دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے والے کے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ وہ قرآن مجید کے تمام مقامات میں تدبر کو ترک نہ کرے کیونکہ اس سبب سے اسے خیر کثیر اور بہت زیادہ فائدہ حا صل ہوگا۔ چونکہ قرآن عظم اس عظمت و جلال کے ساتھ ہدایت یافتہ اور عقل مند لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کرتا ہے اس لیےفرمایا: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ﴾ ’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس (قرآن) سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے اندر بے قرار کردینے اولی تخویف وتر ہیب ہے: ﴿ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰـهِ﴾پھر اس کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متو جہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی امید اور تر غیب کے ذکر کے وقت۔ یہ ذکر کبھی تو ان کو بھلائی کے عمل کی تر غیب د یتا ہے اور کبھی برائی کے عمل سے ڈراتا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ﴾یہ یعنی ان کے اندر تاثیر قرآن کا اللہ تعالیٰ نے جو ذکر کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اس کے بندوں کے لیے اس کی طرف سے ہدایت ہے اور ان پر اس کے جملہ فضل وا حسان میں سے ہے۔﴿ يَهْدِي بِهِ﴾ اللہ تعالیٰ اس تا ثیر قرآن کے ذر یعے سے ہد ایت دیتا ہے۔﴿ مَن يَشَاءُ﴾”جسے چاہتا ہے “اپنے بندوں میں سے، اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ﴿ذٰلِكَ﴾ سے مر اد قرآن ہو یعنی وہ قرآن جس کا و صف ہم نے تمھارے سا منے بیان کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے لیے اس کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں ﴿يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ﴾وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہد ایت عطا کرتا ہے، یعنی جو اچھا مقصد رکھتے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ يَهْدِي بِهِ اللّٰـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾ (المائدۃ:5؍16)اللہ اس کتاب کے ذر یعے سے ان لوگوں کو سلا متی کا راستہ د کھا تا ہے جو اس کی رضا کے طا لب ہیں اور جسے اللہ گمر اہ کر دے اسے کوئی ہد ایت دینے و لا نہیں۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی تو فیق کے سوا کوئی را ستہ نہیں جو اللہ تعالیٰ تک پہنچا تا ہو کتاب اللہ پر تو جہ مر کوز کرنے کی تو فیق بھی اسی سے ملتی ہے پس اگر اللہ کی تو فیق نصیب نہ ہو تور اہ ر است پر چلنے کا کوئی طر یقہ نہیں تب وا ضح گمر اہی اور رسوا کن بد بختی کے سوا کچھ بھی نہیں۔