أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
) کیا ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات میں سجدہ (٨) اور قیام کے ذریعہ اپنے رب کی عبادت میں لگا ہو، عذاب آخرت سے ڈرتا ہو، اور اپنے رب سے اس کی رحمت کی امید لگائے ہو۔ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں، بے شک عقل والے ہی نصیحت کرتے ہیں
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور نافرمانی کرنے والے کے درمیان اور عالم اور جاہل کے مابین مقابلہ ہے، نیز اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جن کا تضاد عقل انسانی میں راسخ اور ان کے درمیان تفاوت یقینی طور پر معلوم ہے۔ پس اپنے رب کی اطاعت سے روگرداں اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اس شخص کے مانند نہیں ہوسکتا ہے جو افضل اوقات یعنی رات کے اوقات میں بہترین عبادت، یعنی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین اعمال کو کثرت کے ساتھ بجا لانے کے وصف سے موصوف کیا، پھر اسے خوف اور امید کی صفات سے موصوف کیا، نیز ذکر فرمایا کہ خوف ان گناہوں کے بارے میں آخرت کے عذاب سے تعلق رکھتا ہے، جو اس سے سر زد ہوچکے ہیں اور امید کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی عمل سے موصوف فرمایا۔ ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ﴾ ” کہہ دیجیے کیا وہ برابر ہوسکتے ہیں جو جانتے ہیں“ جو اپنے رب، اس کے دین شرعی، دین جزائی اور دین کے اسرار اور حکمتوں کا علم رکھتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ اور جو ان مذکور امور کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ یہ دونوں قسم کے لوگ کبھی برابر نہیں ہوتے جس طرح رات اور دن، روشنی اور اندھیرا اور آگ اور پانی برابر نہیں ہوتے۔ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ﴾ جب نصیحت کی جاتی ہے تو صرف وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں ﴿أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ جو صاف ستھری اور تیز عقل کے مالک ہیں۔ پس یہی لوگ اعلیٰ کو ادنیٰ پر مقدم رکھتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ علم کو جہالت پر اور اللہ کی اطاعت کو اس کی مخالفت پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی عقل ان کو عواقب میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس بے عقل شخص اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔