وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف (٧) پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرفٍ دل سے رجوع ہو کر پکارنے لگتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے، تو وہ اس کو تکلیف کو بھول جاتا ہے جسے دور کرنے کے لئے وہ پہلے اللہ کو پکارتا تھا، اور اللہ کے لئے شریک بناتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے گمراہ کرے۔ اے میرے نبی ! آپ (ایسے آدمی سے) کہہ دیجیے کہ تم اپنی نا شکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، بلا شبہ تم جہنمیوں میں سے ہو
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندے پر اپنے فضل وکرم اور اپنے احسان اور بندے کی ناشکری کا ذکر کرتا ہے۔ بندے کو جب مرض اور فقر وفاقہ وغیرہ کی کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ سمندر وغیرہ میں گھر جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تو نہایت عاجزی اور انابت کے ساتھ اسے پکارتا ہے اور اس مصیبت کو دور کرنے میں گڑگڑا کر اس سے مدد طلب کرتا ہے۔﴿ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ﴾” پھر جب اللہ تعالیٰ اسے نعمت سے نواز دیتا ہے“ اور اس سے مصیبت اور تکلیف کو دور کردیتا ہے تو وہ اس تکلیف اور مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا تھا اور اس طرح گزرتا ہے گویا اس پر کبھی کوئی مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی اور یوں اپنے شرک پر جمارہتا ہے۔ اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (لوگوں کو) اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ یعنی خود اپنے نفس کو بھی گمراہ کرے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے، کیونکہ دوسروں کو گمراہ کرنا گمراہ ہونے کا ہی ایک شعبہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لازم پر دلالت کرنے کے لئے ملزوم کا ذکر کیا ہے۔ ﴿قُلْ﴾ ” کہہ دیجیے !“ اس سرکش انسان سے جس نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا ﴿تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ﴾ ”اپنے کفر کا تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے یقیناً تو جہنمیوں میں سے ہے۔“ جب تیرا انجام جہنم ہے تو یہ نعمتیں جن سے تو فائدہ اٹھا رہا ہے تیرے کسی کام نہ آئیں گی۔ ﴿ أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ﴾ ) (الشعراء:26؍205۔207)” کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انہیں مہلت دے کر برسوں فائدہ اٹھانے دیں، پھر ان کے پاس وہ چیز آجائے جس کا انہیں وعدہ دیا جا رہا تھا تو یہ سامان زیست جو انہیں عطا کیا گیا ہے، ان کے کسی کام نہ آئے گا۔‘‘