أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ
کیا ہم بے سبب ان کا مذاق اڑاتے تھے، یا ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پا رہی ہیں
﴿أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ﴾ ” کیا ہم نے ان سے مذاق کیا تھا یا ہماری آنکھیں پھر گئی ہیں“ یعنی ان کا ہمیں نظر نہ آنا دواسباب میں سے ایک سبب پر مبنی ہے یا تو ہم ان کو اشرارشمار کرنے میں غلطی پر تھے، حالانکہ وہ اچھے لوگ تھے۔ تب ان کے بارے میں ہماری باتیں تمسخر و استہزا کے زمرے میں آئیں گی۔ حقیقت فی الواقع یہی ہے، جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ﴾ (المومنون : 23؍109۔ 110) ”بے شک میرے بندوں میں سے کچھ لوگ جب یہ کہتے : اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، لہٰذا ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور تو سب سے اچھا رحم فرمانے والا ہے، تو تم نے ان کا تمسخر اڑایا اور انہیں نشانۂ تضحیک بنایا کرتے تھے۔ “ دوسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوں مگر وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ ان کا اہل ایمان کے بارے میں یہ موقف، دنیا میں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ کر عقائد میں ڈھل گیا تھا، انہوں نے اہل ایمان کے بارے میں نہایت کثرت سے جہنمی ہونے کا حکم لگایا، وہ ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا اور ان کے دل اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اسی حال میں انہوں نے متذکرہ بالا الفاظ کہے۔ یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا کلام، خلاف واقعہ اور ملمع سازی کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ وہ دنیا میں ملمع سازی کیا کرتے تھے، حتی کہ انہوں نے جہنم میں بھی ملمع سازی کی، اسی لئے اہل اعراف اہل جہنم سے کہیں گے۔ ﴿ أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰـهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴾ (الاعراف : 7؍49) ” کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے بارے میں تم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند نہیں کرے گا۔ (ان کو یوں حکم ہوگا کہ) تم جنت میں داخل ہوجاؤ، تم پر کوئی خوف ہے نہ تم غمگین ہو گے۔ “