سورة ص - آیت 44

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان سے یہ بھی کہا کہ) آپ اپنے ہاتھ میں تیلیوں کا ایک مٹھا لے لیجیے، اور اس سے (اپنی بیوی کو) مار دیجیے، اور قسم کی خلاف ورزی نہ کیجیے، بے شک ہم نے ان کو صبر کرنے والا پایا تھا، وہ میرے اچھے بندہ تھے، وہ بے شک اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا۔ ﴿ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا﴾ ” اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو۔“ یعنی درخت کی باریک شاخوں کا گٹھا ﴿ فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ﴾ ” اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ “ مفسرین کہتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام بیماری اور تکلیف کے دوران میں کسی معاملے میں اپنی بیوی سے ناراض ہوگئے تھے، اس پر آپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو سوکوڑے ماریں گے۔ ان کی بیوی، انتہائی نیک اور آپ کے ساتھ بھلائی کرنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خاتون پر اور حضرت ایوب علیہ السلام پر رحم فرمایا اور فتوٰی دیا کہ وہ درخت کی باریک سو شاخوں کا گٹھا لے کر اس سے ایک ہی دفعہ ماریں، ان کی قسم پوری ہوجائے گی۔ ﴿ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ﴾ یعنی ہم نے آپ کو بہت بڑی بیماری اور تکلیف کے ذریعے سے آزمایا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کیا۔ ﴿ نِّعْمَ الْعَبْدُ﴾ ” وہ بہترین بندے تھے“ جنھوں نے خوشی اور مصیبت، خوش حالی اور بدحالی میں عبودیت کے مراتب کی تکمیل کی ﴿ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی مطالب میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے، اپنے رب کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے، اس کو بہت زیادہ پکارنے والے، اس سے محبت اور اس کی عبادت کرنے والے تھے۔