أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ
کیا ہمارے درمیان سے اسی پر قرآن اتار دیا گیا ہے، بلکہ وہ لوگ میرے قرآن کی صداقت میں شبہ کرتے ہیں، بلکہ انہوں نے اب تک میرا عذاب نہیں چکھا ہے
﴿أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا﴾ ” کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (کتاب) اتری ہے؟“ یعنی اسے ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے کہ ہمیں چھوڑ کر، اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے وحی کے لئے مختص کرتا ہے؟ یہ بھی باطل شبہ ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو رد کرنے کے لئے کون سی دلیل ہے؟ کیا تمام انبیاء و رسل کے یہی اوصاف نہ تھے کہ اللہ انہیں رسالت سے سرفراز فرماتا اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا حکم دیتا تھا۔ چونکہ ان سے صادر ہونے والے یہ تمام اقوال، کسی لحاظ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت کو رد کرنے کے لئے درست نہیں، اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ اقوال کہاں سے صادر ہوئے ہیں اور بے شک وہ ﴿ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي﴾ ” میری نصیحت (کتاب) کے بارے میں شک میں ہیں۔“ ان کے پاس کوئی علم اور دلیل نہیں۔ جب وہ شک میں مبتلا ہو کر اس پر راضی ہوگئے، ان کے پاس واضح اور صریح حق آگیا اور وہ اپنے شک پر قائم رہے، تب انہوں نے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق کو ٹھکرانے کے لئے یہ تمام باتیں کہیں۔ ان کی یہ تمام باتیں بہتان طرازی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کوئی ان اوصاف کا حامل ہو اور وہ شک و عناد کی بنا پر باتیں کرے تو اس کا قول قابل قبول ہے نہ حق میں ذرہ بھر قادح ہے، بلکہ وہ تو ایسا شخص ہے جو محض اپنی اس بات کے سبب سے مذمت اور ملامت کا مستحق ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ ﴾ ” انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزا نہیں چکھا۔“ انہیں ایسی باتیں کہنے کی اس لئے جرأت ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں مزے اڑا رہے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مزا چکھا ہوتا تو وہ ایسی باتیں کہنے کی کبھی جرأت نہ کرتے۔