مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ
ہم نے تو یہ بات اقوام گذشتہ کی تاریخ میں نہیں سنی ہے، توحید کی یہ بات تو (اسی محمد کی) گھڑی ہے
﴿مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا ﴾ یہ بات جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں اور وہ دین، جس کی طرف یہ دعوت دیتے ہیں، اس کے بارے میں ہم نے نہیں سنا ﴿ فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ ﴾ ” پچھلے مذہب میں۔“ یعنی قریب کے زمانے کی کسی ملت کے بارے میں سنا ہے نہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے پایا ہے اور نہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ آپ اسی راستے پر چلتے رہو جس پر تمہارے آباء و اجداد چلتے رہے ہیں۔ وہی حق ہے اور جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت دیتے ہیں وہ جھوٹ اور افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی اسی قسم کا شبہ ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے، کیونکہ انہوں نے ایک ایسی چیز کی بنا پر حق کو ٹھکرا دیا جو ایک نہایت ادنیٰ سی بات کو ٹھکرانے کے لئے بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی، یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت، ان کے گمراہ آباء و اجداد کے قول کی مخالف ہے۔ ان کے آباؤ و اجداد کے قول میں کون سی ایسی دلیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے بطلان پر دلالت کرتی ہو۔