فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
پس اے میرے نبی ! ذرا آپ ان سے پوچھئے (٥) تو سہی کہ کیا ان کا (دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے، یا ہماری ان مخلوقات کا جنہیں ہم پیدا کرچکے ہیں، بے شک ہم نے انہیں چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے
اللہ تعالیٰ نے ان عظیم مخلوقات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ﴾ اپنے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے انکار کرنے والوں سے پوچھیے ﴿ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا﴾ ” کیا ان کا پیدا کرنا مشکل ہے۔“ یعنی ان کی موت کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنا مشکل اور مشقت والا ہے ﴿ أَم مَّنْ خَلَقْنَا﴾ یا ان مخلوقات کو وجود میں لانا مشکل ہے جن کو ہم نے تخلیق کیا۔ انہیں اقرار کرناپڑے گا کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق، لوگوں کی تخلیق سے زیادہ مشکل ہے۔ تب ان پر حیات بعد الموت کا اقرار لازم آئے گا بلکہ اگر وہ اپنے آپ پر غور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ چکنی مٹی سے ان کی تخلیق کی ابتدا، موت کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے، اس لئے فرمایا ﴿إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ ﴾ ” ہم نے انہیں چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا۔“ یعنی طاقتور اور سخت مٹی سے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾( الحجر:15؍26) ” ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔ “