قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ
کہیں گے، اے ہماری بردباری ! ہمیں ہماری قبروں سے کس نے اٹھایا ہے، رحمن نے اسی کا تو وعدہ کیا تھا، اور رسولوں نے سچ کہا تھا
﴿يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا﴾ ” ہائے افسوس ! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا؟“ یعنی ہمیں ہماری قبروں میں نیند سے کس نے اٹھایا؟ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اہل قبور صور پھونکے جانے سے تھوڑی دیر پہلے تک سو رہے ہوں گے۔ ان کو جواب دیا جائے گا : ﴿هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ﴾ یعنی یہی وہ قیامت ہے جس کا تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے وعدہ کیا تھا۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی صداقت ظاہر ہوگئی۔ اس مقام پر آپ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت” رحمٰن“ کا ذکر محض اس کے وعدے کی خبر کے لئے کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر تو صرف اس بات سے آگاہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ وہ اس روز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو کبھی ان کے خیال میں بھی نہ گزرے ہوں گے اور حساب لگانے والوں نے بھی حساب نہ لگایا ہوگا، مثلاً فرمایا : ﴿الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾ (الفرقان:25؍26) ” اس دن حقیقی اقتدار صرف رحمٰن کا ہوگا“ اور فرمایا : ﴿وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾(طهٰ:20؍108) ” اور رحمٰن کے آگے آوازیں دب جائیں گی۔“ اور اس طرح کے دیگر مقامات جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی نام ” رحمٰن“ کا ذکر فرمایا ہے۔