وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا (٩) کیا ہے، پھر تمہیں جوڑا (میاں بیوی) بنایا، اور کسی عورت کو نہ کوئی حمل قرار پاتا ہے اور نہ وہ کوئی بچہ جنتی ہے مگر اسے اس کا علم ہوتا ہے، اور نہ کسی بڑی عمر والے کی عمر میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی ہوتی ہے، مگر یہ چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ کام اللہ کے لئے بڑا آسان ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ آدمی کی تخلیق یعنی مٹی سے لے کر نطفے اور بعد کے مراحل میں اس کے منتقل ہونے کا تذکرہ فرماتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا﴾ ” پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتا رہا حتیٰ کہ تم مرد اور عورت نکاح کے مرحلے میں داخل ہوگئے۔ یہاں نکاح اور ازدواج سے مراد اولاد اور ذریت ہے۔ نکاح اگرچہ حصول اولاد کا سبب ہے، تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر اور اس کے علم سے مقرون ہے۔ ﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ﴾ ” اور جو بھی مادہ حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔“ اسی طرح آدمی کی تخلیق کے مختلف ادوار اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے قضا و قدر سے مقرون ہیں۔ ﴿وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ ﴾ ” اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے۔“ یعنی جس شخص کو طویل عمر عطا کی گئی ہو تو اس کی عمر میں کمی نہیں کی جاتی ﴿ إِلَّا ﴾ ” مگر“ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے یا کسی ایسے انسان کی عمر میں جو کمی کی گئی ہو جو اس کی طوالت کے در پے رہتا اگر وہ کوتاہ عمری کے اسباب کو اختیار نہ کرتا، مثلاً زنا، والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی وغیرہ، جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عمر کے کم ہونے کے اسباب ہیں اور معنی یہ ہے کہ عمر کا طویل یا کم ہونا، کسی سبب کی بنا پر ہو یا کسی سبب کے بغیر سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ﴿ فِي كِتَابٍ ﴾ ” ایک کتاب میں“ درج کر رکھا ہے۔ بندے کے تمام ایام حیات اور اس کے تمام اوقات میں اس کے ساتھ جو کچھ گزرتا ہے، سب اس کتاب میں درج ہے۔ ﴿إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرٌ﴾ ” بلا شبہ یہ اللہ کے لئے نہایت آسان ہے۔“ یعنی ان بے شمار معلومات اور اس بارے میں کتاب کا احاطہ بہت آسان ہے۔ یہ تین دلائل جو موت کے بعد والی زندگی پر دلالت کرتے ہیں، سب عقلی دلائل ہیں، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اشارہ کیا ہے۔ (1) زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کرنا۔ (2) وہ ہستی جس نے زمین کو حیات نو بخشی، وہ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ (3) انسان کا ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونا۔ وہ اللہ جو اسے وجود میں لایا، جس نے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں اور ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کیا یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ گیا جو اس کے لئے مقدر تھا، اس اللہ کے لئے اس کی زندگی کا اعادہ کرنا اور دوسری تخلیق عطا کرنا آسان تر ہے۔ اس کے علم نے تمام عالم علوی اور عالم سفلی کا، ہر چھوٹی یا بڑی چیز کا جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے، ان بچوں کا جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں اور عمروں کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کا احاطہ کر کھا ہے اور یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ پس وہ اللہ جس کے لئے یہ سب کچھ اتنا آسان ہے اس کے لئے مردوں کو دوبارہ زندگی بخشنا آسان سے آسان تر ہے۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس کی بھلائیاں ان گنت ہیں۔ اس نے اپنے بندوں کے لئے ان تمام امور کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ان کی معاش و معاد کی بھلائی ہے۔