سورة سبأ - آیت 33

وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کمزور لوگ متکبرین سے کہیں گے، بلکہ تم ہی لوگ رات دن سازش کرتے تھے، جب ہمیں اللہ کا انکار کرنے اور اس کے لئے بہت سے ہمسر بنانے کا حکم دیتے تھے، اور جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اپنی پشیمانی چھپاتے پھریں گے، اور ہم کافروں کی گردنوں میں بھاری طوق ڈال دیں گے، اور وہ جو کچھ دنیا میں کرتے رہے تھے، اسی کا انہیں بدلہ چکایا جائے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللّٰـهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا﴾’’ور کمزور لوگ تکبر کرنے والے لوگوں سے کہیں گے : بلکہ تم رات دن مکر و فریب کرتے رہتے تھے جس وقت تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا انکار کریں اور اس کے لئے شریک ٹھہرائیں۔“ یعنی تم نے جو دن رات سازشیں کیں اور تم نے ہمارے ساتھ مکر و فریب کیا اور اس مکرو فریب سے ہم پر گمراہی کو مسلط کیا، تم ہمارے سامنے کفر کو مزین کیا کرتے تھے پھر اس کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔ تم اس کے بارے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ یہ حق ہے اور حق میں جرح و قدح کر کے اس کی قدر گھٹایا کرتے تھے اور بزعم خود حق کو باطل قرار دیا کرتے تھے۔ تم ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے یہاں تک کہ تم نے ہمیں گمراہ کر کے فتنے میں مبتلا کردیا۔ آپس میں ان کی یہ گفتگو اس کے سوا انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی کہ وہ ایک دوسے سے بے زاری اور سخت ندامت کا اظہار کریں گے، اس لئے فرمایا : ﴿وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو دل میں پشیمان ہوں گے۔“ یعنی اس حجت کا تار و پود بکھر جائے گا جس کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے پر حجت قائم کرتے تھے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے اور وہ جان لیں گے کہ وہ ظالم ہیں اور عذاب کے مستحق ہیں۔ ان میں سے ہر مجرم بے حد پشیمان ہوگا اور وہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ حق پر ہوتا اور اس نے باطل کو چھوڑ دیا ہوتا جس نے اسے اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اپنے جرائم کا اقرار کرلینے کی فضیحت کا خوف ان پر چھا جائے گا۔ قیامت کے بعض موقعوں پر اور جہنم میں داخل ہوتے وقت، وہ با آواز بلند اپنی ندامت کا اظہار کریں گے: ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان:25؍27۔28)” اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا کاش ! میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ﴿وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ (الملک:67؍10۔11)” وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو ہم اصحاب جہنم میں شامل نہ ہوتے، وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے۔ پس جہنمی اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔ “ ﴿وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔“ یعنی ان کو بیڑیاں پہنائی جائیں گی جیسے اس قیدی کو پہنا دی جاتی ہیں جس کی قید میں اہانت مقصود ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ ﴾)(المؤمن:40؍71۔72) ” جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں پہنا دی جائیں گی، پھر انہیں کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا، پھر ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔“ ﴿هَلْ يُجْزَوْنَ﴾ یہ عذاب اور یہ سزا جو انہیں دی گئی ہے اور یہ بوجھل طوق جو انہیں پہنائے گئے ہیں ﴿إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ صرف ان اعمال کی پاداش میں ہے جن کا وہ کفر، فسق اور نافرمانی کر کے ارتکاب کیا کرتے تھے۔