سورة سبأ - آیت 15

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یقیناً سبا (12) والوں کے لئے ان کے مقام رہائش میں نشانی تھی، یعنی دائیں اور بائیں دو باغ تھے، (ہم نے ان سے کہا کہ) تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، پاکیزہ شہر ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا رب ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

” سبا“ ایک معروف قبیلہ تھا جو یمن کے قریب ترین علاقوں میں آباد تھا۔ وہ ایک شہر میں آباد تھے جسے ” مَأرِب“ کہا جاتا تھا۔ تمام بندوں پر عموماً اور عربوں پر خصوصاً اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی بے پایاں نعمتیں ہیں کہ اس نے قرآن مجید میں ان ہلاک شدہ قوموں کے بارے میں خبر دی ہے جن پر عذاب نازل کیا گیا، جو ان کے پڑوس میں آباد تھیں، جہاں ان کے آثار کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور لوگ ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں اتکہ اس طرح ان کے واقعات کے ذریعے سے قرآن کی تصدیق ہوا اور یہ چیز نصیحت کے قریب تر ہو۔ ﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ﴾ ” سبا کے لئے تھی ان کے مسکنوں میں“ یعنی ان کے مساکن جہاں وہ آباد تھے ﴿ آيَةٌ ﴾ ” ایک نشانی“ اور وہ نشانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور بہت سی تکالیف کو ان سے دور کیا اور یہ چیز اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ﴾ ”ان کے دائیں بائیں دو باغات تھے۔“ ان کے پاس ایک وادی تھی جہاں بہت کثرت سے سیلاب آتے تھے انہوں نے اس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بہت مضبوط بند تعمیر کیا۔ چنانچہ سیلاب کا پانی آکر اس وادی میں جمع ہوجاتا پھر وہ اس وادی کے دائیں بائیں لگائے ہوئے اپنے باغات کو اس پانی سے سیراب کرتے یہ دو عظیم باغ ان کے لئے اتنا پھل پیدا کرتے جو ان کی معیشت کے لئے کافی ہوتا۔ اس سے انہیں بہت مسرت حاصل ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی پہلوؤں سے اپنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا : (1) یہ دونوں باغ ان کو ان کی خوراک کا بہت بڑا حصہ فراہم کرتے تھے۔ (2) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے علاقے کو، اس کی نہایت خوشگوار آب و ہوا، اس کے مضر صحت نہ ہونے اور رزق کے ذرائع کی فراوانی کی بنا پر بہت خوبصورت بنایا۔ (3) اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا، اس لئے فرمایا : ﴿بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ﴾ ” پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب ہے۔ “ (4) اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اپنی تجارت اور اپنے مکاسب میں ارض مبارک کے محتاج ہیں۔۔۔ سلف میں سے ایک سے زائد اہل علم کے مطابق ارض مبارک سے ” صنعاء“ کی بستیاں مراد ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ارض شام ہے۔۔۔ تو ان کو ایسے ذرائع اور اسباب مہیا کردیئے جن کے ذریعے سے ان بستیوں تک پہنچنا ان کے لئے انتہائی آسان ہوگیا۔ انہیں دوران سفر امن اور عدم خوف حاصل ہوا، ان کے درمیان اور ارض مبارک کے درمیان بستیاں اور آبادیاں تھیں، بنا بریں انہیں زادراہ کا بوجھ اٹھانے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔