يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا
اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل (43) نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لئے داخل ہونے کی اجازت دی جائے، لیکن تم (پہلے ہی سے بیٹھ کر) اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو، بلکہ تمہیں بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ، اور جب کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ، اور آپس میں بات چیت کرنے میں دلچسپی نہ لو، بے شک تمہاری یہ حرکت نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے، لیکن وہ تم سے حیا کرتے ہیں، اور اللہ حق بات بیان کرنے میں حیا نہیں کرتا ہے، اور جب تم ان (امہات المومنین) سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے اوٹ سے مانگو، ایسا کرنے سے تمہارے اور ان کے دل زیادہ پاکیزہ رہیں گے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاؤ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے شادی کرو، تمہارا ایسا کرنا اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی بات ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں، لہٰذا فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ﴾ یعنی کھانے کے لئے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم ﴿نَاظِرِينَ إِنٰهُ﴾ کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوا کرو : (1) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد (2) تمہارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔ اسی لئے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ﴾ ” لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔“ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّ ذَٰلِكُمْ﴾ یعنی ضرورت سے زیادہ تمہارا وہاں انتظار کرنا ﴿كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ﴾ ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتا ہے‘‘ یعنی وہاں تمہارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی ہے۔ ﴿فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ﴾ یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ جیسا کہ عادت جا ریہ ہے کہ لوگ۔۔۔ خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ۔۔۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ لیکن ﴿اللّٰـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ﴾ ” اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔“ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمہارے لئے بھلائی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز، مثلاً گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں ﴿مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ ” پردہ کے پیچھے سے،“ یعنی تمہارے درمیان اور اوزاج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہر حال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ ” یہ تمہارے اور انکے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے“ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شہبے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لئے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہوگی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے، پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لَكُمْ﴾ اے مومنو ! تمہارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے ﴿أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰـهِ﴾ ” کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ۔“ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا﴾ ” اور نہ (تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ) آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔“ یہی چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حامل ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منافی ہے، نیز ازواج مطہرات، دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لئے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لئے جائز نہیں۔ ﴿ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللّٰـهِ عَظِيمًا﴾ ” یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ کا کام) ہے۔“ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا تھا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الشُّکْرُ