وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیتوں اور حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھو، بے شک اللہ بڑا باریک بیں، بہت ہی باخبر ہے
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو عمل کا حکم دیا جو فعل و ترک پر مشتمل ہے تو پھر انہیں علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور اس کا طریقہ بیان فرمایا، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللّـٰهِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ ” اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔“ یہاں آیات الٰہی سے مراد قرآن، حکمت سے مراد قرآن کے اسرار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا جو تلاوت قرآن کے ذریعے سے لفظی ذکر، اس کے معانی میں غور و فکر، اس کے احکام اور اس کی حکمتوں کے استخراج، اس پر عمل اور اس کی تاویل کے ذکر کو شامل ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ﴾ ”بے شک اللہ تعالیٰ باریک بین، خبردار ہے۔“ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کے اسرار نہاں، سینوں کے بھید، آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی تمام چیزوں اور تمام کھلے چھپے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اس کا لطف و کرم اور خبر گیری اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اخلاص للہ اور اعمال کو چھپانے کی ترغیب دے، نیز تقاضا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی جزا دے۔(اَلَّلطِیْفُ) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو اپنے بندے کو ایسے مخفی طریقے سے بھلائی عطا کرتی ہے اور شر سے بچاتی ہے، جس کا اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے طرح رزق عطا کرتی ہے کہ اسے اس کا ادراک تک نہیں ہوتا اور وہ اسے ایسے اسباب دکھاتی ہے جسے نفس ناپسند کرتے ہیں، مگر یہ اسباب اس کے لئے بلند درجات اور اعلیٰ مراتب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔