سورة الأحزاب - آیت 27

وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ نے تمہیں ان کی زمین، ان کے مکانات اور ان کے مال کا مالک بنا دیا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَأَوْرَثَكُمْ ﴾ ” اور تمہیں وارث بنایا۔“ یعنی تمہیں غنیمت میں عطا کیا ﴿ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ﴾ ” ان کی زمین، ان کے گھروں اور ان کے اموال اور اس زمین کا جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں تھا۔“ یعنی ایسی سرزمین جس پر تم اس کے مالکان کے نزدیک اس کی عزت و شرف کی بنا پر چل نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس زمین پر اور اس کے مالکوں پر اختیار عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مالکوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا، تم نے ان کے اموال کو مال غنیمت بنایا، ان کو قتل کیا اور ان میں کچھ کو قیدی بنایا۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور اپنی قدرت سے اس نے تمہارے لیے یہ سب کچھ مقدر کیا۔ اہل کتاب کا یہ گروہ، یہودیوں میں سے بنو قریظہ کا قبیلہ تھا، جو مدینے سے باہر تھوڑے سے فاصلے پر آباد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ان کے ساتھ امن اور دفاع کا معاہدہ کیا۔ آپ نے ان کے خلاف جنگ کی نہ انہوں نے آپ سے کوئی لڑائی لڑی اور وہ اپنے دین پر قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہ کی۔ جنگ خندق میں جب ان یہودیوں نے کفار کے لشکروں کو جمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوتے دیکھا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ اور مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کا استیصال کردیں گے اور بعض یہودی سرداروں نے دجل و فریب کے ذریعے سے حملہ آوروں کی مدد کی، اس لیے اس معاہدے کو توڑنے کے مرتکب ہوئے جو ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا اور انہوں نے مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کو ناکام و نامراد لوٹا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بدعہد یہودیوں کے خلاف جنگ کے لیے فارغ ہوگئے اور آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا تو انہوں نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث تسلیم کرلیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور ان کے مال کو مال غنیمت بنالیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان پر اپنی نوازش اور عنایت کی تکمیل کی، ان پر اپنی نعمت پوری کی اور ان کے دشمنوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر ان کو قتل کرکے اور ان میں سے بعض کو قیدی بناکر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ اپنے مومن بندوں کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا رہا ہے۔