وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا
اور اگر ان کے دشمن (١٢) مدینہ کے چاروں طرف سے گھس آتے، پھر ان منافقوں سے مسلمانوں کے خلاف فتنہ میں شریک ہونے کو کہا جاتا تو اس میں کو دپڑتے اور اس بارے میں بہت کم توقف کرتے
﴿ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم ﴾ ” اور اگر ان پر داخل کیے جائیں )لشکر( “ مدینہ منورہ میں ﴿ مِّنْ أَقْطَارِهَا ﴾ یعنی شہر کے ہر طرف سے کافر گھس آتے اور اس پر قابض ہوجاتے۔ ﴿ ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ ﴾ پھر ان کو فتنے کی طرف بلایا جاتا، یعنی دین سے پھر جانے اور فاتحین اور غالب لشکر کے دین کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جاتی ﴿ لَآتَوْهَا ﴾ تو یہ جلدی سے اس فتنے میں پڑجاتے ﴿ وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا ﴾ ” اور اس کے لیے بہت کم ٹھہرتے۔“ یعنی دین کے بارے میں ان کے اندر قوت اور سخت جانی نہیں ہے، بلکہ اگر صرف دشمن کا پلڑا بھاری ہوجائے، تو دشمن ان سے جو مطالبہ کرے یہ مان جائیں گے اور ان کے کفر کی موافقت کرنے لگ جائیں گے۔ یہ ان کا حال ہے۔