النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
نبی مومنوں کے ان کے اپنے آپ سے زیادہ حقدار (٥) ہیں اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور اللہ کی کتاب میں مومنین و مہاجرین رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، الایہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی بھلائی کرنی چاہو، یہ بات لوح محفوظ میں نوشتہ ہے
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایک ایسی خبر بیان کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور آپ کے مرتبے کو پہچان سکتے ہیں تاکہ وہ اس حال اور مرتبے کے مطابق آپ کے ساتھ معاملہ کریں، اس لیے فرمایا ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ﴾ ” نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔“ یعنی انسان کے لیے سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن کے لیے خود اس کی ذات پر بھی مقدم ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی خیر خواہی کرتے ہیں، ان کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں۔ مخلوق میں سب سے بڑھ کر رحیم اور سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ ان پر مخلوق میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان ہے کیونکہ انہیں اگر ذرہ بھر بھلائی حاصل ہوئی ہے یا ان سے کوئی ذرہ بھر برائی دور ہوئی ہے تو آپ کے ہاتھ سے اور آپ کے سبب سے ہوئی ہے۔ اس لیے جب کبھی اس کے نفس کی مراد یا کسی اور شخص کی مراد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد سے متعارض ہو تو اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد کو مقدم رکھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے، کسی شخص کے قول کا، خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، مقابلہ نہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جان، مال اور اولاد کو فدا کردیں، آپ کی محبت کو تمام مخلوق کی محبت پر مقدم رکھیں، جب تک کہ آپ بول نہ لیں، ہرگز نہ بولیں، اور آپ سے آگے نہ بڑھیں۔ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مومنوں کے باپ ہیں، جیسا کہ بعض صحابہ کرام کی قرأت میں پڑھا گیا ہے، آپ اہل ایمان کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ اب اس باپ ہونے پر یہ اصول مترتب ہوتا ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہوں، یعنی حرمت، احترام اور اکرام کے اعتبار سے۔ گویا یہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے قصے کا مقدمہ ہے جو کہ عنقریب آئے گا، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس سے پہلے ” زید بن محمد“ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ﴾ (الاحزاب : 33؍40) ”محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نسب اور آپ کی طرف انتساب دونوں منقطع کردیئے۔ اس آیت کریمہ میں آگاہ فرما دیا کہ تمام اہل ایمان، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی اختصاص حاصل نہیں۔ اگرچہ کسی کا منہ بولا بیٹا ہونے کا انتساب منقطع ہوگیا مگر نسب ایمانی منقطع نہیں ہوا اس لیے اسے غم زدہ اور متاسف نہیں ہونا چاہیے۔ اس آیت کریمہ سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہیں لہٰذا آپ کے بعد وہ کسی کے لیے حلال نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں صراحت فرما دی ہے : ﴿ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا﴾ (الاحزاب : 33؍53) ” اور نہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرو۔ “ ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ﴾ یعنی رشتہ دار، خواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یا دور کے رشتہ دار۔ ﴿ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰـهِ﴾ ” آپس میں کتاب اللہ کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے۔ پس وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کریں گے۔ قرابت کا تعلق دوستی اور حلف وغیرہ کے تعلق سے بڑھ کر ہے۔ اس آیت کریمہ سے پہلے، ان اسباب کی بنا پر رشتہ داروں کی بجائے منہ بولے بیٹے وارث بنتے تھے۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تو اس توارث کو منقطع کردیا۔ اپنے لطف و کرم اور حکمت کی بنا پر حقیقی اقارب کو وارث بنا دیا کیونکہ اگر معاملہ سابقہ عادت اور رواج کے مطابق چلتا رہتا تو شر اور فساد پھیل جاتا اور قریب کے رشتہ داروں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے حیلہ سازی بکثرت رواج پا جاتی۔ ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ﴾ خواہ یہ قریبی رشتہ مومن اور مہاجر ہوں یا غیر مہاجر ہوں، بہرحال رشتہ دار مقدم ہیں۔ یہ آیت کریمہ تمام معاملات میں قریبی رشتہ داروں کی ولایت پر دلیل ہے، مثلاً نکاح اور مال وغیرہ کی ولایت ﴿ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا﴾ ”مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔“ یعنی ان کا کوئی مقرر شدہ حق نہیں ہے یہ صرف تمہارے ارادے پر منحصر ہے۔ اگر تم ان کو نیکی کے طور پر کوئی عطیہ دینا چاہو تو دے دو۔ ﴿ كَانَ ﴾ یہ حکم مذکور ﴿ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ﴾ کتاب میں لکھ دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدم کردیا ہے، لہٰذا اس کا نفاذ لازمی ہے۔