سورة السجدة - آیت 17

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس کوئی شخص نہیں جانتا (١٤) کہ اس کے نیک اعمال کے بدلے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کون سی نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ تو ہے ان کا عمل، رہی اس کی جزا، تو فرمایا : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ ﴾ یہاں سیاق نفی میں نکرہ کا استعمال ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تمام مخلوق کے نفوس شامل ہیں یعنی کوئی نہیں جانتا ﴿ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾ ” کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ یعنی خیر کثیر، بے شمار نعمتیں، فرحت و سرور اور لذتیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر فرمایا : ” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اس کا خیال آیا ہے۔“ [صحیح البخاری، باب قوله: ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ۔۔۔۔﴾(السجدة:32؍17)حدیث:4779 و صحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمھا و أھلھا، باب صفة الجنة ،حدیث:2824]جس طرح وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے، انہوں نے اپنے عمل کو چھپایا پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے عمل ہی کی جنس سے جزا عطا کی ہے اس لیے ان کے اجر کو چھپا دیا، اسی لیے فرمایا : ﴿ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” یہ اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “