سورة لقمان - آیت 27

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور زمین میں جتنے درخت (٢٠) ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے اور اس کے بعد مزید سات سمندر اس کی مدد کریں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے، بے شک اللہ زبردست، بڑا صاحب حکمت ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی وسعت اور اپنے قول کی عظمت کو ایسی شرح کے ساتھ بیان کیا جو دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے، جس سے عقل و خرد حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور عقل مند اور اصحاب بصیرت اس کی معرفت میں سیاحت کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ ﴾ ” اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں۔“ جن کے ساتھ لکھا جائے ﴿وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ﴾ ” اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اور“ روشنائی بن جائیں جن سے لکھنے میں مدد لی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور یہ روشنائی ختم ہوجائے گی لیکن ﴿ كَلِمَاتُ اللّٰـهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی باتیں لکھنے سے کبھی ختم نہ ہوں گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ عقل انسانی اللہ کی بعض صفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے اس کی معرفت سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے انہیں سرفراز کیا ہے اور سب سے بڑی منقبت ہے جو انہیں حاصل ہوئی ہے جس کا کامل طور پر ادراک ممکن نہیں، مگر جس چیز کا کامل ادراک ممکن نہ ہو اس کو کامل طور پر ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے بعض صفات کی طرف اس طرح توجہ دلائی ہے جس سے ان کے قلب منور ہوتے ہیں اور انہیں شرح صدر حاصل ہوتی ہے وہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس پر وہ نہیں پہنچے، اس چیز سے راہنمائی لیتے ہیں جس تک وہ پہنچ چکے ہیں اور وہ اسی طرح کہتے ہیں جیسے ان میں سے بہترین انسان اور اپنے رب کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی ہستی نے کہا : (( لَانُحْصِی [اصل لفظ ((لاَاُحْصِی)) ہے اور یہ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی سبقت قلم ہے۔] ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ )) [صحیح مسلم ،الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود؟،ح:486]” ہم تیری ثناء بیان نہیں کرسکتے، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی ثناء بیان کی۔“ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے جلیل تر اور عظیم تر ہے۔ یہ تمثیل ان معانی کو قریب کرنے کے باب میں سے ہے جہاں تک پہنچنے کی ذہن اور فہم طاقت نہیں رکھتا۔ ورنہ اگر درختوں کو کئی گنا کرلیا جائے اور سمندروں کو بھی کئی گنا کرکے ان کی روشنائی بنا لی جائے تب بھی ان کے ختم ہونے کا تو تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مخلوق ہیں۔۔۔ رہا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام، تو اس کے ختم ہونے کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ عقلی اور نقلی دلیل دلالت کرتی ہے کہ اس کا کلام ختم ہوتا ہے نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا باقی ہر چیز کی انتہا ہے۔ ﴿ وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ ﴾ (النجم : 53؍42) ” اور تیرے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔ “ جب عقل اللہ تعالیٰ کی ” اولیت“ اور ” آخریت“ کا تصور کرے تو، ذہن گزرے ہوئے زمانوں کو فرض کرے۔ وہ ازمان گزشتہ کا جتنا بھی اندازہ لگائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی پہلے ہے جس کا کوئی منتہیٰ نہیں۔ اسی طرح عقل و ذہن میں آنے والے زمانوں کے بارے میں خواہ کتنا ہی اندازہ کرلیں اور قلب و زبان کے ذریعے سے اس کی مدد بھی لے لیں، اللہ تعالیٰ ان کے ان اندازوں سے بھی زیادہ متاخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تمام اوقات میں فیصلہ کرتا ہے، کلام کرتا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنا قول و فعل صادر کرتا ہے اسے اپنے اقوال و افعال سے کوئی چیز مانع نہیں۔ جب عقل نے اس حقیقت کا تصور کرلیا تو معلوم ہوا کہ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ضمن میں بیان کی ہے صرف اس لیے ہے کہ بندوں کو اس کا تھوڑا سا ادراک ہوجائے ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے عظیم تر اور جلیل تر ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عزت کے جلال اور کمال حکمت کا ذکر کیا۔ فرمایا ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  ﴾ ” بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی تمام عزت و غلبے کا وہی مالک ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی میں جو بھی قوت پائی جاتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے، وہی ہے جس کی توفیق کے بغیر گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے۔ وہ اپنے غلبے کے ذریعے سے تمام مخلوق پر غالب ہے، ان میں تصرف اور ان کی تدبیر کرتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ اس کی تخلیق سے اس کی غرض و غایت اور مقصد بھی حکمت ہی ہے۔ اسی طرح امر و نہی بھی اس کی حکمت ہی سے وجود میں آئے ہیں، اور ان کو وجود میں لانے کی غایت مقصود بھی حکمت ہی ہے۔ پس وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔