وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ ۖ فَهَٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور جنہیں علم و ایمان کی دولت (٣٧) دی گئی تھی وہ کہیں گے کہ تم لوگ اللہ کی کتاب کے مطابق حشر کے دن تک ٹھہرے رہے، تو یہ حشر کا دن، لیکن تم لوگ جانتے نہ تھے
﴿ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ﴾ ” اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے۔“ یعنی جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے ان دو چیزوں کے ساتھ احسان کیا اور حق کا علم اور وہ ایمان جو حق کی ترجیح کو مستلزم ہے ان کا وصف بن گیا۔ جب انہوں نے حق کو جان لیا اور حق کو ترجیح دی تو لازم ہے کہ ان کا قول واقع اور ان کے احوال کے مطابق ہو، بنا بریں وہ حق بات کہیں گے : ﴿ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللّٰـهِ﴾ ” تم اللہ کی کتاب کے مطابق رہے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مطابق، جو اس نے اپنے حکم میں تمہارے لیے مقرر کردی تھی ﴿ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ﴾ ” قیامت تک“ یعنی تمہیں اس قدر عمر دی گئی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا، تدبر کرنے والا اس میں تدبر کرسکتا تھا اور عبرت پکڑنے والا اس میں عبرت پکڑسکتا تھا حتیٰ کہ قیامت آگئی اور تم اس حال کو پہنچ گئے۔ ﴿ فَهـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” پس یہ یوم قیامت ہے، لیکن تم )اسے حق( نہیں جانتے۔“ اس لیے تم نے اس کا انکار کیا، تم نے دنیا میں ایک مدت تک کے لیے اپنے قیام کا انکار کیا جس میں توبہ اور انابت تمہارے بس میں تھی، مگر جہالت اور اس کے آثار، یعنی تکذیب تمہارا شعار اور خسارہ تمہارا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔