اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
وہ اللہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا (٣٥) کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا بنا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ تو بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسعت علم، عظمت اقتدار اور کمال حکمت کو بیان کرتا ہے کہ اس نے انسان کو کمزوری سے پیدا کیا اور وہ اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل ہیں یعنی اس نطفے سے جما ہوا خون بنایا پھر گوشت کا لوتھڑا بنایا اور پھر رحم کے اندر زندہ انسان بنایا پھر اس کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا۔ جب وہ سن طفولیت میں ہوتا ہے تو انتہائی ضعیف اور اس میں قوت و قدرت معدوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی قوت میں اضافہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اس کی قوت اور اس کے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہوجاتے ہیں۔ پھر اس مرحلے سے کمزوری اور بڑھاپے کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ﴾ وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بندہ اپنے ضعف کا مشاہدہ کرے۔ اس کی قوت دو قسم کی کمزوریوں سے گھری ہوئی ہے اور فی نفسہ اس کے پاس نقص کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے طاقت عطا نہ کرے تو اسے طاقت حاصل ہوسکتی ہے نہ قدرت اور اگر اس کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے تو وہ بغاوت اور سرکشی میں بڑھتا چلاجائے گا۔ بندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت دائمی ہے وہ اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے، اپنی قدرت سے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اسے تھکن لاحق ہوتی ہے نہ کمزوری اور نہ کسی طرح اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔