وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے انبیاء (٣٢) کو ان کی قوموں کے پاس بھیجا تھا، جو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس جن لوگوں نے جرم کیا ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر مومنوں کی تائید و نصرت واجب تھی
﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ ﴾ ” اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھیجے“ یعنی گزشتہ امتوں میں ﴿ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ﴾ ” رسول ان کی قوم کی طرف۔“ یعنی جب ان قوموں نے توحید کا انکار کیا اور حق کی تکذیب کی تو ان کے رسول ان کے پاس آئے جو ان کو توحید اور اخلاص کی دعوت دیتے تھے، حق کی تصدیق اور ان کے کفر اور ضلالت کا ابطال کرتے تھے۔ وہ اپنے اس موقف پر واضح دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایمان لائے نہ انہوں نے اپنی گمراہی کو ترک کیا ﴿ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا﴾ ” پس ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا“ اور انبیا کی پیروی کرنے والے اہل ایمان کی مدد کی ﴿ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی۔“ یعنی اہل ایمان کی نصرت ہم نے خود اپنے آپ پر واجب کی، اہل ایمان کی نصرت کو جملہ متعین حقوق میں شامل کیا اور ان کے ساتھ اس نصرت کا وعدہ کیا۔ پس اس کا واقع ہونا ضروری ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والو ! اگر تم تکذیب کی روش پر قائم رہے تو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ہم تمہارے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح و نصرت سے سرفراز کریں گے۔