سورة الروم - آیت 38

فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اے میرے نبی ! آپ رشتہ دار کو اس کا حق (٢٤) دیجیے اور مسکین کو اور مسافر کو، یہ کام ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قرابت دار کو اس کی قرابت اور ضرورت کے مطابق اس کا حق ادا کرو جو شارع نے واجب قرار دیا ہے یا اس کی ترغیب دی ہے مثلاً نفقات واجبہ اور صدقات کی ادائیگی کرنا، ہدیہ دینا، نیک سلوک کرنا، سلام کرنا، عزت و تکریم کرنا، دوسرے کی لغزش کو معاف کرنا اور اس کی بدکلامی پر رواداری سے کام لینا۔ اسی طرح مسکین کو، جسے فقر و فاقہ نے لاچار کردیا ہو، اتنا عطا کرنا جس سے اس کے کھانے پینے اور لباس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ ﴿ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ وہ غریب الوطن مسافر جس کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو، اپنے شہر سے دور ہو جس کے بارے میں گمان ہو کہ وہ انتہائی ضرورت مند ہوگا اس کے پاس مال ہے نہ ہاتھ میں کوئی کسب جس کے ذریعے سے وہ دوران سفر اپنی ضروریات کا انتظام کرسکتا ہو، برعکس اس شخص کے جو اپنے شہر میں رہتا ہے اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غالب حالات میں اس کے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی صنعت و حرفت کا کام کرتا ہوگا جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہوگی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ میں مسکین اور مسافر کا (الگ الگ) حصہ رکھا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کو عطا کرنا ﴿ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں“ اس عمل کے ذریعے سے ﴿ وَجْهَ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کا چہرہ“ یعنی بے شمار بھلائی اور ثواب کثیر، کیونکہ یہ بہترین اعمال ہیں، ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے بشرطیکہ موقع و محل کے مطابق اور اخلاص سے مقرون ہوں۔ اگر اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو عطا کرنے والے کے لیے کوئی بھلائی نہیں خواہ اس شخص کو اس سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچا ہو جسے عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ﴾ (النساء : 4؍114) ” ان لوگوں کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں، سوائے اس کے کہ صدقہ کا حکم دیا ہو یا نیکی کا یا لوگوں کے درمیان صلح کروائی ہو۔ “ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کاموں میں بھلائی ہے کیونکہ ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے، مگر جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔ فرمایا : ﴿ وَأُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ اعمال بجا لاتے ہیں ﴿ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” وہی فلاح پانے والے ہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے فیض یاب اور اس کے عذاب سے نجات یافتہ ہیں۔