مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اللہ کی طرف رجوع (١٩) کرتے ہوئے (دین اسلام پر قائم رہو) اور اسی سے ڈرو اور نماز کو قائم کرو، اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ
﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ﴾ ” اسی کی طرف رجوع کیے رہو اور اس سے ڈرتے رہو۔“ یہ جملہ ” دین کی طرف توجہ رکھنے“ کی تفسیر ہے کیونکہ (انابت) ” رجوع کرنا“ سے مراد، قلب کا رجوع کرنا اور اس کے تمام داعیوں کا اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف کھنچنا ہے۔ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ بدن قلب کے تقاضوں کے مطابق کام کرتا ہے اور اس یہ چیز ظاہری اور باطنی عبادت کو شامل ہے اور اس کی اس وقت تک تکمیل نہیں ہوتی جب تک ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک نہ کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَاتَّقُوهُ﴾ ” اس سے ڈرتے رہو۔“ یہ تمام مامورات کی تعمیل اور تمام منہیات سے اجتناب کو شامل ہے۔ مامورات میں نماز کا خاص طور پر ذکر کیا۔ کیونکہ نماز انابت اور تقویٰ کی طرف بلاتی ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت : 29؍45)” نماز قائم کر، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔“ گویا یہ تقویٰ پر اعانت ہے، پھر فرمایا : ﴿ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ ﴾ (العنکبوت : 29؍45)” اور اللہ کا ذکر اس سے بڑھ کر ہے۔“ اور یہ انابت کی ترغیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منہیات میں سے ایسی برائی کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جس کے ہوتے ہوئے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور وہ ہے شرک، فرمایا : ﴿ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور مشرکوں میں نہ ہونا۔“ کیونکہ شرک، انابت کی ضد ہے اور انابت کی روح ہر لحاظ سے اخلاص ہے۔