سورة آل عمران - آیت 51

إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک اللہ (44) میرا اور تمہارا رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” یقین مانو، میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو۔“ توحید ربوبیت (یعنی اللہ کے خلاق ہونے) کا اقرار سب کو ہے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو توحید الوہیت (یعنی صرف اللہ کے معبود برحق ہونے) کی دلیل بنایا۔ جسے مشرکین نہیں مانتے۔ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارا خالق، رازق اور ہمیں تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں دینے والا صرف اللہ ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی ماننا چاہئے کہ ہمارا معبود صرف اللہ ہے جس سے ہم محبت رکھیں، اس سے ڈریں، اس سے امیدیں رکھیں، اس سے دعائیں کریں، اس سے مدد مانگیں اور عبادت کی دوسری تمام صورتیں بھی اس کے لئے مخصوص کردیں۔ اس سے نصاریٰ کی تردید ہوتی ہے۔ جو عیسیٰ علیہ السلام کو معبود مانتے ہیں۔ یا اللہ تعالیٰ کابیٹا کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق، اللہ کے بندے اور اللہ کی مشیت کے ماتحت ہیں۔ جیسے انہوں نے فرمایا تھا : ﴿إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴾ (مریم :19؍30) ” میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا ہے۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ  مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ﴾(المائدہ :5؍ 116۔117) ” اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو۔ عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں۔ مجھ کو کسی طرح زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے، اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے میں نے ان سے اور کچھ نہیں کہا، مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔“ ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ” یہی سیدھی راہ ہے“ یعنی اللہ کی عبادت، اس کا تقویٰ اور اس کے رسول کی فرماں برداری ہی سیدھی راہ ہے جو اللہ تک اور اس کی جنت تک پہنچاتی ہے۔ اس کے سوا ہر راستہ جہنم کی طرف پہنچانے والا ہے۔